لیاری میں ایک مرتبہ پھر آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں جرائم پیشہ افراد اور گینگ وار کارندوں نے لیاری کو دوبارہ اپنا مسکن بنانا شروع کردیا ہے۔انتہائی سنگین جرائم میں مطلوب سماج دشمن عناصر جو کچھ عرصہ پہلے آپریشن میں مارے جانے کے خوف سے دم دبا کر بھاگ گئے تھے آج بغیر کسی خوف اور مزاحمت کے لیاری میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک کے نیچے منشیات کا مکروہ دھندا عروج پر پہنچ چکا ہے۔ گلیوں،سڑکوں،چوراہوں، تعلیمی اداروں، کھیل کے میدانوں حتیٰ کے مسجدوں کے سامنے نوجوانوں کی ٹولیاں تھیلیاں اٹھائے کھلے عام منشیات بھیجتے نظر آتے ہیں۔
Posts By: اکرم بلوچ
اپوزیشن کی تحریک اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کا امتحان۔
اپوزیشن جماعتوں کے حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل وفاق گزیدہ دو بڑی سیاسی بلوچ قوم پرست جماعتیں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرح ملکی سیاسی اکھاڑے میں طالع آزمائی کر رہی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے قبل ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کی تحریکیں مشروط منتخب حکومتوں اور کنٹرولڈ جمہوریتوں پر منتج ہوئی ہیں۔
طاقت کا سر چشمہ اور مقدس ملاقاتیں
ملکی سیاست اس وقت ملاقاتوں کے گرد طواف کررہی ہے۔ یہ ملاقاتیں کس حد تک مقدس اور مقدم ہیں اس متعلق ہم آگے روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے لیکن فی الوقت کون، کب اور کس جگہ عسکری قیادت سے ملاقات کا شرف حاصل کرچکا ہے۔ یکے بعد دیگرے انکشافات نے تجزیوں، تبصروں اور ٹی وی ٹاک شوز کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے ہر طرف ان مقدس ملاقاتوں کا چرچا ہے۔ کوئی ان کو جائز اور وقت کی ضرورت سمجھ رہا ہے تو کوئی ان کی مخالفت کرکے سیاست دانوں کے دوہرے کردار کا مذاق اڑا رہا ہے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم سے تکلیف کیوں؟
مملکت خدا داد میں وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی کا سلسلہ قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے سانحہ مشرقی پاکستان کا مؤجب بن گیا اور 1971 میں ملک دولخت ہوگیا لیکن اس کے بعد بھی چھوٹے صوبوں کے متعلق وفاق کی جارحانہ پالیسیوں میں کمی نہیں آئی۔ خدا خدا کر کے 1973 کا دستور اتفاق رائے سے منظور ہوگیا اور چھوٹے صوبوں کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ دس سال بعد آئین میں موجود کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرکے صوبوں کو خود مختاری دی جائے گی لیکن 1977 میں جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔
سندھ میں بلدیاتی اداروں کی ناکامی کے اسباب و محرکات
سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مدت ایک ایسے وقت میں پوری ہوئی جب طوفانی بارشیں اپنی شدت کے ساتھ جاری تھیں سوسالہ ریکارڈ توڑ بارشوں نے کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں تباہی و بربادی کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو برسوں یاد رکھے جائیں گے جس وقت بلدیاتی نمائندے اپنے اختتامی ایام کو گننے میں مصروف تھے اور کب نوٹیفکیشن جاری ہوگا اس کا منتظر تھے انہی دنوں صوبے کے مختلف علاقوں میں بارشوں کا قہر نازل ہورہا تھا کراچی ، حیدرآباد ، میرپورخاص ،بدین اور سانگھڑ سمیت کئی علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی تھی اور آنے والے دنوں میں مزید تیز اور موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مدت ویسے تو 28 اگست کو ختم ہوگئی تھی لیکن محرم الحرام کی چھٹیوں کے باعث 31 اگست کو باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرکے چار سال تک بلدیاتی اداروں میں رہنے والے منتخب نمائندوں کو فارغ کر دیا گیا۔
سندھ کا سیاسی منظر نامہ۔
ملکی سیاست کے منظر نامہ پر اس وقت صوبہ سندھ کو ایک انفرادیت حاصل ہے باقی تین صوبوں کے برعکس یہاں پیپلزپارٹی بلا شرکت غیرے اقتدار پر براجمان ہے۔بارہ سال سے مسند اقتدار پر رہنے کے باوجود پیپلزپارٹی کو سندھ میں بڑے سیاسی اور عوامی مسائل کے چیلنجز کا سامنا ہے۔اٹھارویں آئینی ترمیم سے ملنے والی صوبائی خود مختاری کے مکمل حصول کے لئے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کا وفاق سے تنازعہ “ن” لیگ کی وفاقی حکومت سے شروع ہوتا ہوا اب تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے دور میں شدت اختیار کر گیا ہے۔
کوئٹہ شریں ہندے نہ اِنت؟
منافق ،دروگ بند،جاہل،پندل ساز بے مہر ءُُ بے وفائیں دوزواہ وَ ہرجاہ ءُُ ہمک قوم ءَ است انت بلئے اے شہر ءَ ایشانی کچ ءُ کیل باز انت ۔ کوئٹہ ۔۔۔۔ہما شہر بوتگ کہ وتی زید ءُُ زیبدار ی ءَ یک وہد ے ایشی ءَ را لیٹل پیرس اوں گشگ بوتگ بلئے نوں چوش نہ انت پیرس وَ دوریں گپے اے وَ شہرے ءِ گشگ ءَ اوں دپ میاری بیت ۔کوئٹہ ءَ سد ءَ یک انچیں مردمے دربئیت انت کہ ہما وڑ بوتگ کہ ہما وڑ وت ءَ داشتگے بلئے ہزاراں لکھاں مردم بدل بوتگ انت ۔