’’سوال ہی جواب ہیں،جو سوال کرتا ہے، وہ جواب سے گریز نہیں کر سکتا۔‘‘ تم جانتے ہو ہمارے اندر موجود یقین کی قوت کس طرح ہمارے فیصلوں،اعمال،قسمت اور ہماری زندگیوں کی سمت پر اثرانداز ہوتے ہیں اور یہ سب اثرات سوچ کی پیداوار ہوتے ہیں۔سوچ سے مراد ہے ہمارے ذہن کا ساری زندگی کے دوران معانی کی قدر پیمائی کرنے اور معانی تخلیق کرنے کا انداز۔چنانچہ ہم روزانہ کس طرح اپنی حقیقت کو تخلیق کرتے ہیں اور اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں؟
Posts By: اسماء طارق
سوال یہ ہے کہ
جب نئی حکومت آئی تو سب کو یوں لگا جیسے اب سب منٹوں میں بدل جائے گا ، یہ لوٹ مار ختم ہو جائے گی انقلاب آ جائے گا۔حکومت نے بھی آتے ہی بے شمار وعدے اور دعوے کیے جنہیں سن کر جہاں سب کے دل باغ باغ ہوئے وہیں وہ لوگ بھی حمایت کرنے لگے جو پہلے مخالف تھے۔
تبدیلی ملاحظہ فرمائیں
تبدیلی کسی نعرہ بازی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ عمل سے ممکن ہوتی ہے مگر یہاں تو لوگوں پر آج کل تبدیلی کا کچھ ایسا نشہ چڑھا ہو اہے کہ ان سے کچھ بھی بات کریں تو وہ صرف یہی جواب دیتے ہیں تبدیلی آ گئی ہے، یہ سب سن کر سر پکڑ نے کو دل چاہتا ہے کہ عمران خان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے جو وہ آتے ہی سب ٹھیک کر دے گا کہ وہ چھڑی گھمائیگا اور پورا پاکستان نیا بن جائے گا اور سب کچھ بدل جائے گا مگر لوگوں کی باتیں سن کر تو یہی لگتا ہے۔