نئے سال میں پچھلی نفرت بھلا دیں
چلو اپنی دنیا کو جنت بنا دیں
Posts By: آصف خان
پختون کلچر (کلتور)ڈے۔۔۔۔۔۔
23 ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے پختون کلچر ڈے کے طور پر جوش و خروش سے مناتے ہیں۔اس دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات رکھی جاتی ہیں جس میں پشتون کلچر کے مختلف رنگ نظرآتے ہیں جن میں خواتین کی کشیدہ کاری سے مزین پوشاک، شادی بیاہ کے موقع پر استعمال ہونے والے خصوصی زیورات، خوراک، رہن سہن، ملبوسات، روایتی رقص اتنڑ کے رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔ مختلف سٹالز بھی لگائے جاتے ہیں جن میں اْن ثقافتی اشیاء کو رکھا جاتا ہیں جن کا استعمال اب ختم ہو رہا ہے۔
نرسز ڈے اور پاکستان
تشویش کی بات یہ ہے کہ مڈوائفری پیشے کی حالت زار یہ ہے جس نے اپنی کوئی شناخت نہیں حاصل کی ہے اور غلطی سے نرسنگ کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر طلباء حقیقی ڈلیوریوں میں کسی کے ساتھ یا بہت ہی کم تجربہ رکھنے والے ڈپلومے محفوظ رکھتے ہیں، اور اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ پاکستان ہماری زچگی کی اعلیٰ شرح اموات کے لئے خاص طور پر ان معاشروں میں، جہاں 40فیصد پیدائشیں ہوتی ہیں، کے لئے مضر اثرات کے ساتھ قابل دایہ پیدا نہیں کررہی ہیں۔مڈوائف کے پاس اپنے پیشے پر عمل کرنے کے لئے کچھ مواقع موجود ہیں۔ لہذا، اگرچہ ہزاروں افراد کو ہر سال تربیت دی جاتی ہے لیکن وہ نظر نہیں آتے ہیں۔ ریگولیٹری میکانزم کے بغیر نہ تو مڈوائف اور نہ ہی ان خواتین کی جن کو وہ خدمت کرتے ہیں ان کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ مزید برآں، ان کے کیریئر کے امکانات نرسوں سے کہیں زیادہ تاریک اور کمتر ہیں۔
نرسز ڈے اور پاکستان
بارہ مئی کو دنیا بھر میں نرسنگ ڈے منایا جاتا ہے لیکن اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کے نرسز کیلیے صورتحال قدرے مختلف ہے کئی نرسز اپنی زندگی کی بازی ہارچکے ہیں ان میں ترقی یافتہ ممالک امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی نرسز بھی شامل ہیں۔ یہ دن بنیادی طور پر فلورنس نائٹ انگیل کی پیدائش کا دن ہے جو نرسنگ کے شعبے میں جدت لانے والی خاتون تھی یہی وجہ ہے کہ اس دن کو ان سے اور نرسنگ سے منسوب کیا گیا ہے۔جب کریمیا جنگ اختتام کو پہنچی تو ایک پروقار فوجی تقریب رکھی گئی تھی جس میں فوجیوں سے کہا گیا کہ وہ کاغذ کی پرچی پر اْس شخصیت کا نام لکھیں۔
آج ہے مزدور کا دن
آج کے دور میں بہت ہی کم مزدوں کو پتہ ہوگا یکم مئی مزدورں کا دن ہے۔کیونکہ مزدور آج کے دن بھی اپنی روٹی کے لیے سرگرداں ہیں۔دن تو انکا ہے لیکن افسوس اپنی دن کو منانے سے بھی محروم ہیں اس سال تو رہی سہی کسر کورونا وائریس نے پوری کردی، نہیں تو پانچ ستارے والے ہوٹلوں میں مختلف تقریبات اس دن کی مناسبت سے رکھ لی جاتی جن سے مزدوروں کو کوسوں دور رکھا جاتا۔
کراچی کے عظیم مسیحا کو سلام…
کراچی جو اس وقت دو کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے یہاں بہت سے رفاعی ادارے اور سماجی رہنما اپنے حصے کا کام کررہے ہیں جس میں صحت کے شعبے میں ڈاکٹر ادیب رضوی ایس آئی یو ٹی انڈس اسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری اپنے کام کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا ہرشخص کی لوگوں میں قدر وقیمت اور احترام اس کے ہنر سے ہے۔انسان اپنے لئے توہر کوئی جیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کے لئے جیتے ہیں وہ اللّہ کے خاص بندے ہوتے ہیں جو اللّہ کے فضل و کرم سے اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیتے ہیں۔
عطائیت کے حوالے سے عوام کی غلط فہمیاں
کراچی کے علاقے پنجاب کالونی میں گزشتہ روز ایک شخص عطائیت کی بھینٹ چڑھ گیا جب عطائی ڈاکٹر نے اسے کرونا کا مریض قراردے دیا جس پر اس شخص نے اپنے خاندان کو بچانے کی خاطر خودکشی کرلی لیکن ابتک اس عطائی ڈاکٹر کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔کچھ عرصے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب پولیس کو ایک حکم دیا تھا کہ وہ صوبے بھر کے تمام عطائی ڈاکٹروں کو ایک ہفتے میں گرفتار کر کے رپورٹ پیش کرے۔ اس حکم کے ساتھ ہی پنجاب پولیس حرکت میں آتی ہے اور صوبہ بھر میں عطائی ڈاکٹروں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع کر تی ہے، میڈیا کے اعداد وشمار کے مطابق کافی گرفتاریاں عمل میں آئیں تھیں۔
کورونا میرے شہر میں
روشنی اور تاریکی دو مختلف حالتوں ہی کا نہیں بلکہ دو مختلف کیفیات کا نام بھی ہے۔ روشنی کا سفر کسی بھی جان دار کی زندگی میں تب شروع ہوتا ہے، جب ایک نومولود ماں کے پیٹ سے اندھیرے کا ایک طویل سفر طے کر نے کے بعددنیا میں داخل ہوتا ہے، اور پھر یہی سفر روشنی سے تاریکی کی جانب سفر کرتے تکیمل پاتا ہے۔ وہ اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔ جیسے اْجالا زندگی اور اندھیرا موت کی علامت ہو، بالکل اسی طرح اچھائی، نیکی یا خیر بھی اْجالے کے مانند ہے۔ جب کہ برائی یا شر کو اندھیرے سے تشبیہ دینا غلط نہ ہو گا۔ ایسے ہی اْمید اْجالا اور نا اْمیدی گہرا اندھیرا۔ جنت روشنی ہے اور جہنم تاریک گڑھا۔