اس وقت بلوچستان کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کے ذریعے ایک مہم چلائی ہے جس میں لکھا گیا ہے ’’ ڈوبتا بلوچستان ،خاموش انتظامیہ ‘‘حالیہ بارشوں کو ایک ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔مگر آج تک وزیر اعظم پاکستان سمیت کسی بھی وزیر نے ایک سو بیس کے قریب سیلاب متاثرین جو انتقال کر گئے ان کے گھروں تک پہنچنے کی زحمت تک نہیں کی۔ چودہ سے زائد رابطہ سڑکوں کے پل مہندم ہوگئے ہیںپھر بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔کراچی سے لسبیلہ اور لسبیلہ سے کوئٹہ جانے والی سڑک کا برا حال ہوگیا ہے ،جو دس دن گزرنے کے باوجود تاحال بحال نہیں کی گئی ہے۔ انگریزوں کے دور کے بنائے گئے سب پل آج تک قائم و دائم ہیں مگر ہمارے دور جدید کے تمام پل پانی برد ہوگئے ہیں جو ایک انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ حکمرانوں کاایسا رویہ دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا، جوبلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ہم لوگ دلی پر تو قبضہ کا ہر روز سوچتے ہیں۔مگر بلوچستان میں سیلاب متاثرین کیلئے کام کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ آخر ایسا رویہ کیوں ؟ کاش اسلام آباد میں موجود قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لوگوں کو بلوچستان کا نقشہ مل جائے تاکہ وہ بلوچستان کا دورہ کرکے بلوچستان کے عوام کی داد رسی کریں یا جھوٹی تسلیاں ہی دے دیں۔شدید بارشوں کی وجہ سے اکثر بلوچستان کے لوگ سڑکوں اور نہروں کے کناروں بچائے جانے کے منتظر ہیں۔ جن کے پاس ایک مچھر دانی تک نہیں ہے افسوس اس بات کی کہ لوگ چاند پر پہنچ گئے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو ہیلی کاپٹر نہیں مل رہا ہے کہ کس ہیلی کاپٹر پر بلوچستان پہنچا جائے۔ بلوچستان تک پہنچنے کیلئے حکومت وقت کے نمائندوں کے پاس گاڑیوں کی بھی سخت کمی ہے یا پٹرول کے پیسے نہیں ہیں۔حالیہ بارشوں سے بلوچستان کے لوگوں کے مال مویشی، فصلیں اور گھر تباہ ہوگئے ہیں۔ اس وقت ریاست کہاں ہے؟ اس وقت حکومت وقت کہا ںہے؟ وزیر اعظم پاکستان صاحب اس وقت کہا ںہیں؟…فلڈ کنٹرول کہاں ہے…؟ این ڈی ایم اے کہا ںہے…؟ پی ڈی ایم اے کہاں ہے…؟ عدلیہ ،اشرافیہ کہاں ہے۔…؟ جو دعا زہرا کا کیس کئی ماہ تک لڑ سکتا ہے جو راتوں کو کھلتا ہے۔۔۔۔ حکومت گرانے اور بچانے کے لیے۔۔۔۔؟ آج بے یار مدد گار سڑکوں کے کنارے پر بیٹھے ہوئے لوگ کسی اعلیٰ عدلیہ کے شخص کو کیوں نظر نہیں آتے ہیںکیونکہ یہ بلوچستان ہے ۔