اجہاں سے وہ ماہ صیام کے دوران اپنی ضرورت کی اشیاءسستے داموںخریدسکتے ہیںمگر جب عوام سستا بازار کا رخ کرتے ہیں تو انتہائی مایوس ہوکرلوٹتے ہیں اور جب بڑے بازاروں اور مارکیٹوںمیں اشیاءکی قیمتیں دیکھتے ہیں تو وہ بیچارے اپنی جیب کو دیکھ کر محدود اشیاءلے کر صرف گزربسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح سے افطاری وسحری کا کچھ انتظام ہوسکے کیونکہ ملک میںمعاشی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیںہے کہ ہماری معیشت لاغر ہوچکی ہے جو گروتھ کرنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
Posts By: ببرک کارمل جمالی
بلوچستان میں سکون تلاش
بلوچستان ‘‘کے نام سے ہی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بلوچوں کی سرزمین ہے۔ مگر بلوچستان میں صرف بلوچ ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں دوسرے اقوام بھی آباد ہیں اگر کسی مباحثے کا موضوع خالصتاً بلوچستان اور نیند ہو تو پھر بھی ہم ضرور سوچتے ہیں کہ نیند کیا ہے کیسے ہوتا ہے اور کیسے نیند سے سکون ملتا ہے۔ بلوچستان میں نیند بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ بلوچستان میں نیند ہی سکون ہوتا ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے جب پورے بلوچستان میں ہمارے نظروں کے سامنے کابلی لمبے لمبے گاڑیوں والے گزرتے ہیں تو ہم سوچتے ہیکہ یہ لوگ بڑے پر سکون زندگی گزارتے ہوں گے ۔
*تاریخی چوکنڈی مقبرے*
بلوچستان کئی اعتبار سے پاکستان کا نہایت منفرد صوبہ ہے۔یہ بلوچوں کا صوبہ ہے جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔ آثار قدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی ہوتی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات ملے ہیں۔ سکندر اعظم کے فتح سے قبل بلوچستان پر ایرانی سلطنت کی حکمرانی ہوتی تھی۔ اور ان کے اونٹ گھوڑے بہت مشہور تھے۔ بلوچ سرداروں کے گھوڑے دنیا بھر میں بہت مشہور تھے اور وہ اپنے گھوڑوں کو بہت عزیز رکھتے تھے۔
بلوچستان کا ٹوٹا پھوٹا نہری نظام
پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے مگر آج کل بلوچستان میں صاف پانی انتہائی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ آج بھی بلوچستان کے لوگ جوہڑ اور تالابوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کے سات اضلاع کے لوگ نہری پانی پینے پر مجبور ہیں جن میں پٹ فیڈر کینال اور کیرتھر کینال شامل ہیں۔ اس وقت بلوچستان کے حصے کا پانی صرف 10300 (دس ہزار تین سو) کیوسک ہے جو سندھ اور پنچاب کی ایک بڑی نہر سے بھی کم ہے جو بلاشبہ ایک شرم ناک بات ہے۔ بلوچستان کے حصے کا پانی سندھ کے دو بیراجوں سے آتا ہے جن میں گڈو بیراج سے چھ ہزار سات سو (6700) کیوسک جبکہ سکھر بیراج سے دو ہزار چار سو (2400) کیوسک براستہ کیرتھر کینال ملتا ہے۔
ننھی پری برمش کا کیا قصور؟
بلوچستان گزشتہ کچھ دہائیوں سے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے۔ پہلے یہ دہشت گرد بلوچستان میں عوامی مقامات کو نشانہ بناتے تھے جن میں بسوں کے اڈے، ریلوے اسٹیشن بازار و شاپنگ سینٹر ان کا ہدف ہوتے تھے لیکن بعد میں ان دہشت گردوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور زیادہ سے زیادہ بے قصور اورمعصوم لوگوں کو مارنا شروع کر دیا اور بے خبر غریبوں کو نشانہ بنانے لگے۔اب تک بلوچستان میں ہزاروں افراد ایسے واقعات میں شہید ہوچکے ہیں۔ چند روز قبل بلوچستان کے ضلع تربت ڈھنک میں ایک دل دہلادینے والا واقع پیش آیا۔ اقتدار کے بادشاہوں کی سرپرستی میں بندوق بردار ڈاکوؤں نے بلوچی روایات کو پاؤں تلے روند کر چادر و چار دیوار کو پامال کیا اور بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک نہتے خاتون پر حملہ آور ہوئے۔۔۔۔۔۔
میٹھی عید سے جڑے بلوچستان کے میٹھے رسم ورواج
پاکستان کے دیگرعلاقوں کی طرح بلوچستان کے باسی بھی عیدالفطر کو میٹھی عید کے نام سے پکارتے ہیں، اس عید کو محبتوں کی مٹھاس کے علاوہ اس سے جْڑی میٹھی سوغاتوں کی بدولت اس کو میٹھی عید کا نام دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں میٹھی عید پہ سیویّاں لازم وملزوم ہیں۔ میٹھی عید پر سیویّاں نہ ہوں تو عید ادھوری سمجھی جاتی ہے۔بلوچستان میں پہلے ہاتھوں سے تھوڑی تھوڑی کر کے سیویّاں تیار کی جاتی تھیں، اب مشینی ہاتھوں نے اس کام کو تیز رفتار بنا دیا ہے مگر آج بھی بلوچستان میں ان مشینی ہاتھوں کا استعمال بہت کم ملتا ہے۔ شاید اس کی وجہ غربت ہے یا صدیوں پرانے رسم و رواج۔
ماں تجھے سلام
ماؤں کا دن منانے کا آغاز ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اینا ہاروس چاہتی تھیں کہ اس دن کو ایک مقدس دن کے طور پر سمجھا اور منایا جائے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 8 مئی 1914 کو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طورپر ماؤں کا دن قرار دیا۔یومِ ماں یا ماں کا عالمی دن ہر سال یہ دن مختلف ممالک میں منایا جاتا ہے، عالمی طور پر اس کی کوئی ایک متفقہ تاریخ نہیں، یہ دن مختلف ممالک میں مختلف تاریخوں کو منایا جاتا ہے۔ پاکستان اور اطالیہ سمیت اکثر ممالک یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔۔
خوشامدی کلچر
دنیا میں سب سے زیادہ کام کی چیز چمچہ ہے کیوں کہ چمچے کے بغیر کوئی چیز تیار کرنا بہت مشکل ہے۔ دنیا میں کھانے کی ہر چیز چمچے سے تیار ہوتی ہے۔ ان چمچوں نے آج کل کے دور میں بہت ترقی کی ہے، جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ ہر آفیسر، بیورو کریٹ اپنے ساتھ اپنا ایک چمچہ رکھتا ہے۔ وہ چمچہ انسانی شکل میں ہوتا ہے اور وہ چمچہ صاحب تک پہنچانے کا آسان حل ہوتا ہے۔ دنیا میں جتنی ان چمچوں نے ترقی کی شاید کسی اور نے نہیں کی ہوگی۔ اب تو یہ چمچے ہر گلی ہر محلے سے نکل کر ہر آفس تک آپ کو مختلف شکلوں میں ملیں گے۔