سوشل میڈیا میں ایک تصویر نظروں سے گزری جس میں ایک شخص پلے کارڈ تھامے کھڑا ہے جس پر عبارت تحریر ہے کہ ” ملیر میرا وجود ہے اسے مجھ سے مت چھینو”
Posts By: حفیظ بلوچ
لاپتہ آبادی
کس قدر حیرت اور ناقابلِ یقین بات ہے کہ “کراچی” کے ایک کروڑ سے زائد افراد “مسنگ ” ہیں اور ان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو تلاش ہے۔ شہر کی اہم شاہراہوں اور گلی کوچوں پر بینرز کے ذریعے پیغام آویزاں ہیں کہ” ہمیں درست شمار کرو”۔پاکستان پیپلز پارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، پاکستان تحریک انصاف ، پاک سر زمین پارٹی اور جماعتِ اسلامی کو 2017 کی مردم شماری کے نتائج پر کراچی کی آبادی ” ڈیڑھ کروڑ ” پر شدید اعتراضات ہیں اور ان کے مطابق شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ نہیں بلکہ “ڈھائی کروڑ ” سے زائد ہے۔
ملیر کا نوحہ ( حصہ دوئم)
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مزار جس مقام پر واقع ہے قیام پاکستان سے قبل یہاں “بلوچوں” کی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ منفرد اور بلند مقام ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ بلوچی زبان میں اسے “قیامہ سری” کہتے تھے۔ اور یہ زمین خدا داد خان گبول کی ملکیت تھی جب ریاست نے فیصلہ کیا کہ یہاں قائد اعظم کو سپرد خاک کیا جائے گا تو مقامی باشندوں نے اپنی زمین بانی پاکستان کی آخری آرام گاہ کے لئے پیش کردی اور یہاں کی آبادی کو وہاں منتقل کیا گیا جسے آج جہانگیر روڈ پٹیل پاڑہ کہا جاتا ہے بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔
جلتا روم اور نیرو کی بانسری
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو عوام کی ہمدردیاں نصیب ہوئیں جس کے نتیجے میں تیرہ برس سے سندھ میں یہ جماعت تخت نشین ہے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے حالیہ دنوں اپنا وژن بیان کرتے ہوئے کہا کہ وقت لگے گا اور پھر کراچی روم بنے گا۔دانشور و ادیب اشفاق احمد کہتے ہیں جب میں اٹلی کے شہر روم میں مقیم تھا تو ایک بار اپنا جرمانہ بروقت ادا نہ کرنے پر مجھے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ جب جج نے مجھ سے پوچھا کہ جرمانے کی ادائیگی میں تاخیر کیوں ہوئی تو میں نے کہا کہ میں ایک ٹیچر ہوں اور کچھ دنوں سے مصروف تھا اس لئے جرمانہ ادا نہیں کر پایا۔
ملیر کا نوحہ
یہ تاثر عام ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اپنے نجی شراکت داروں کو مالی فوائد فراہم کرنے کے لیے جہاں ہر قانون کو توڑ دیتی ہے وہیں عوامی مفادات کو طاقت کے زور پر کچل بھی دیتی ہے۔ اس تاثر کو مزید تقویت دینے کے لئے ایک اور متنازعہ منصوبہ کا سنگ بنیاد بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں کروایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے نجی شعبے کے اشتراک سے ملیر ایکسپریس وے پر کام کا آغاز کردیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سندھ حکومت کی غلط منصوبہ بندی سے کراچی کا ایک اور اہم منصوبہ کامتنازعہ ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔