وبائیں یا پھر بڑی بڑی قدرتی یا انسانی آفتیں، ہمیشہ بڑے اور ناقابل فراموش سبق دے جاتی ہیں ، ان ناقابل فراموش اسباق کی بنیاد پر انسان اپنی زندگی اور مستقبل کے معاملات طے کرتا ہے ،لیکن، ہم ایسی اقوام میں سے ہیں جو کبھی بھی کسی بڑی مصیبت یا پھر وبا سے کچھ بھی نہیں سیکھتے اور سب کچھ بہت جلد بھول جاتے ہیں، ہماری یادداشت بطور قوم بہت ہی کمزور ہے۔ نیز، ایک عجیب و غریب نفسیاتی خوش فہمی کے کنویں میں رہتے ہیں کہ ہم بہت ہی اعلیٰ درجے کے انسان ہیں۔ لیکن، طے شدہ حقائق بالکل بھی اس کے برعکس ہیں، عقل و فہم کے بجائے ضد، ڈھٹائی اور جہالت کو فروغ دینے سے مستقبل کے روشن دان ہم پر کبھی بھی نہیں کھل سکتے۔ آج کل معاملات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ ہر بندہ خود ساختہ ارسطو بنا پھرتا ہے۔ عقل کسی کی میراث تو نہیں لیکن چند سوشل میڈیائی مجاہدین اپنی تھوڑی بہت سنی سنائی کے دم پر عوام کے صحت سے متعلقہ مستقبل طے کرنے کے لئے میدان میں نکلے ہوئے ہیں اور کورونا اور اس کی ویکسین کے حوالے سے بڑے پیمانے پر افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔
Posts By: حسین منصور
سندھ کے فلاحی ہسپتال اور پرائیویٹ مافیا کے گدھ
کہتے ہیں کہ ایک شخص حامد کرزئی کے پاس پہنچا، اور فرمائش کی کہ انہیں افغانستان میں ریلوے کا وزیر لگا دیا جائے۔ کرزئی بے چارے ششدر رہ گئے۔جواب میں کرزئی نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں ایسے ہی ریلوے کا منسٹر لگا دوں۔ بندے نے کہا کیوں نہیں لگا سکتے، کرزئی نے کہا کہ ” ہمارے یہاں ریلوے کا نظام ہی نہیں ہے تو میں کیسے تمہیں ریلوے کا وزیر لگا دوں۔” بندے نے جواب میں کرزئی سے کہا، ” اگر پاکستان میں قانون کا وزیر ہو سکتا ہے تو افغانستان میں ریلوے کا وزیر کیوں نہیں ہو سکتا؟ِ
وڈیرے وفاق کا ہاری سندھ
ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا، بہت ہی محنتی تھا، اس نے اپنی محنت سے اپنے ٹوٹے پْھوٹے گھر کو تیار کر کے ایسا سجایا کہ ہر جگہ اس کے چرچے ہونے لگے، گاؤں کا وڈیرا پوری زندگی جگت بازی میں پورا رہتا تھا، لہٰذا جہاں تھا، وہیں کا وہیں رہ گیا۔ اس کی حالت میں ایک پیسے کی ترقی یا جدت نہیں آئی ، بالآخر ایک دن وڈیرے کو غصہ آگیا، اور کہنے لگا کہ ہاری کا گھر اس (وڈیرے) کا ہے، لہٰذا کسان کو اپنا گھر جلد از جلد خالی کر دینا چاہئے ، اب وہ گھر “وڈیرے” کا مسکن ہے۔ اس کہانی میں کسان، “سندھ” اور “وڈیرہ” وفاق ہے۔
صوبائی خودمختیاری اور سندھ کے اداروں کے سر پر لٹکتی تلوار
اگر موجودہ حکومت کے سیاسی ثمرات کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ سرکار پاکستان کے تاریخ کی واحد سرکار ہے، جو کسی بھی صورت وفاقی تو دور کی بات، “حکومت” ہی نہیں لگ رہی۔ وفاقی سرکار اب ایسا چوہدری، یا وڈیرا بن گئی ہے جو کسی بھی کسان کی فصل اترنے پر آکر کھڑا ہو جاتا ہے اور سارا غلہ پانی اپنے گھر اٹھا کر لے جاتا ہے۔ یوں تو سندھ کی تمام ہسپتالیں بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں، لیکن کراچی کا سول ہسپتال، جناح ہسپتال، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ، سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) اور سندھ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو وسکیولر ڈزیز (این آئی سی وی ڈی) انتہائی اہم ہسپتالوں میں شمار ہوتے ہیں، اور ان کے چرچے زبان زد عام ہیں، جب کسی بھی مریض کو کہیں بھی بچنے کی تسلی نہیں رہتی تب اس کو ان ہسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے، اور یہ پیپلز پارٹی کی کاوشوں اور مخیر حضرات کی صدقِ دل سے دی جانے والی امداد کا نتیجہ ہے کہ ان ہسپتالوں سے شاید ہی کوئی مایوس لوٹتا ہے، وگرنہ تو لوگ تندرست و توانا ہو کر یہاں سے اپنے گھر جاتے ہیں۔