پاکستانی سینیٹ ، یعنی ایوان بالا کا بنیادی وظیفہ قانون سازی ہے۔ ادھر قوانین پیش کیے جاتے ہیں، اوربعد ازاں ایوان زیریں کے مانندارکان کی ووٹنگ ہوتی ہے۔ سینیٹ کی ذمے داریوں میں قانون سازی کے حوالے سے حکومتی اقدامات کی جانچ پڑتال،قوانین متعارف کرانا ، ان پر بحث اور فنانس بل پر سفارشات پیش کرنا شامل ہے۔ ارکان قومی اسمبلی کے برعکس، جو براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں، سینیٹرز کا انتخاب صوبائی نمائندگی کے تناسب سے ہوتا ہے، اسی وجہ سے ان کے اختیارات منتخب نمائندوں سے مختلف ہوتے ہیں۔
Posts By: اکرام سہگل
جنوب ایشیا ئی زرعی انقلاب کی حقیقت
گزشتہ موسم خزاں میں مودی سرکار کی جانب سے’’ زرعی انقلاب‘‘ کے لیے نئے قوانین کے نفاذ نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر کسانوں کے احتجاج کو جنم دیا۔ اس احتجاج کا مرکز ہندوستان میں زرعی اہمیت کی حامل ریاستیں پنجاب، ہریانہ اور یوپی رہیں۔زرعی بحران ایک اہم مسئلہ ہے، جو صرف بھارت تک مخصوص نہیں، دنیا بھر میںجاری متعدد اقدامات کا مقصد زراعت کو زیادہ موثر بنانا اور غربت اور کاشت کاروں کے مالی انحصار کا مقابلہ کرنا ہے۔جنوبی ایشیا میںملازمتوں کا بڑا حصہ زراعت سے جڑا ہے اور اس کا مختلف ممالک کی GDPمیں اہم کردار ہے۔
جعلی خبروں کا زہر
سیاسی و معاشی فوائد کے لیے جھوٹ اور افوائیں پھیلانا صدیوں کا آزمودہ حربہ ہے۔ 24صدیوں پہلے اسے ’’ارتھ شاستر‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اس کتاب کو ریاستی امور چلانے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے آج بھی نصاب کا درجہ حاصل ہے۔ فتنہ و انتشار پھیلانے کے سبھی ہتھ کنڈے اس میں شامل ہیں اور اس اعتبار سے ارتھ شاستر کو ہائیبرڈ وار کی قدیم ترین کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ مودی نے اس نصاب کو گھول کر پی رکھا ہے اور اسی لیے جھوٹ اور جعلی خبریں پھیلانے کو باقاعدہ فن بنا دیا ہے۔ ارتھ شاستر کا مصنف کوٹلیہ، جو چانکیہ کے نام سے معروف ہے۔
یکساں تعلیمی نصاب مگر اتفاق رائے سے !
ملک کے تمام شہریوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی پاکستان کی معاشی ترقی، غربت میں کمی اور ریاستی استحکام کا بنیادی تقاضا ہے۔ لیکن یہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے لیے مضبوط معیشت اور سیاسی ہم آہنگی ضروری ہے۔ جدید تعلیم سے نہ صرف پاکستانی معاشرے کا فرسودہ قبائلی اور جاگیردارانہ ڈھانچا تبدیل ہوگا بلکہ سماجی و معاشی رشتوں میں بھی تبدیلیاں آئیں گی۔ اس لیے قبائلی، جاگیردار اور مذہبی اشرافیہ تعلیم کے ایسے منصوبوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔
نیا سال اور ہماری قومی ترجیحات
2020دنیا بھر میں حکومتوں کے لیے آزمائش کا سال ثابت ہوا۔ پاکستان میں حکومت کی کارکردگی بُری نہیں رہی، بلکہ بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر رہی ۔ عمران خان کو ادراک تھا کہ ملک کی بہت بڑی آبادی دیہاڑی دار مزدوروں پرمشتمل ہے اس لیے دیگر ملکوں کی اندھی تقلید سے گریز کرتے ہوئے پاکستان میں سخت لاک ڈاؤن کی پالیسی اختیار نہیں کی گئی۔ اگر یہ غیر دانش مندانہ قدم اٹھایا جاتا تو ملک میں کورونا سے زیادہ لوگ بھوک سے مرتے۔ غریب عوام کی مدد کے لیے حکومت کے زیادہ تر اقدامات مؤثر ہوئے اور بعض کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
امریکی جمہوریت کا کڑا امتحان
چار سال قبل ٹرمپ امریکی سیاست کے لیے ایک اجنبی نام تھا اور یہ تصور بھی محال تھا کہ وہ صدارتی انتخاب جیت لے گا۔ امریکی سیاست کے بااثر حلقوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ہیلری کلنٹن کی جیت یقینی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کسی نے ٹرمپ کو سنجیدہ نہیں لیا اور صدارتی امیدواروں کے لیے ہونے والی روایتی کڑی جانچ پڑتال کے بغیر ہی انہیں میدان میں اترنے دیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے ’’ریڈ نیک‘‘ (سرخ گردن) کہلائے جانے والے سفید فام امریکیوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس طبقے کی اکثریت فیکٹری مزدور ہے ۔
امریکا کے صدارتی انتخابات؛ کئی انہونیاں ہوسکتی ہیں
2016 میں امریکا کے صدارتی انتخابات سے دس روز قبل انتخابی پیش گوئیاں ہلیری کلنٹن کے حق میں تھیں اور ٹرمپ کی شکست واضح نظر آرہی تھی۔ تاہم یہ پیش گوئیاں بہرحال اندازے ہی تھے اور ووٹر کا فیصلہ بیلٹ باکس سے برآمد ہونا تھا۔ اُن حالات میں بھی میرے آنجہانی دوست فرینک نیومین عمومی فضا کے برخلاف مہینوں پہلے مجھے بتاچکے تھے کہ ٹرمپ صدارتی انتخابات جیت جائے گا۔ امریکا کی مڈویسٹ یا وسط مغربی کہلانے والی ریاستیں مدتوں سے ”ڈیموکریٹ“ تصور کی جاتی ہیں اس لیے ہلیری کلنٹن کا خیال تھا کہ وہاں نتائج جوں کے توں رہیں گے۔
قائد اعظم ہم شرمندہ ہیں!
مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر نے بابائے قوم قائد اعظم کے مزار کی جس طرح کھلی بے ادبی کی اور وہ اس پر کھڑی مسکراتی رہیں، اس واقعے نے ہر پاکستانی کے دل میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ لیکن نوازشریف کے وفا داروں نے اس کی مذمت میں ایک لفظ بھی کہنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ مزار کے اندر جاکر سیاسی نعرے بازی کرنے اور اس کی حرمت پامال کرنے پر اگلی ہی صبح کیپٹن صفدر کو سندھ پولیس نے مختصر وقت کے لیے گرفتار کیا لیکن بد قسمتی سے قانونی کارروائی مکمل نہیں کی گئی۔
اس ملک کی بدنصیبی ہے کہ ایسے واقعات دورس نتائج پیدا کرتے ہیں۔
ڈی ایچ اے کراچی اور سی بی سی، چندمغالطوں کا ازالہ (2)
صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس علاقے میں نکاسیئ آب کا انفرااسٹرکچر 48گھنٹوں کے دوران 217ملی میٹر بارش کے لیے بنایا گیا ہے۔ جب کہ 27اگست کو علاقائی سطح پر بعض علاقوں میں ایک گھنٹے کے دوران 130ملی میٹر اور چار گھنٹوں میں 230ملی میٹر تک بارش ہوئی۔ اس کی وجہ سے شہری علاقوں میں سیلاب آیا۔ سی بی سی اور ڈی ایچ اے کا علاقہ کراچی کے جنوبی حصے میں واقع ہے جو کہ برساتی نالوں اور دیگر آبی گزرگاہوں کا آخری سرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے پر پانی کا دباؤ بھی زیادہ ہوتا ہے جس کے باعث کئی زیر آب علاقوں سے چارپانچ دن تک پانی نہیں نکالا جاسکا۔
ڈی ایچ اے کراچی اور سی بی سی، چندمغالطوں کا ازالہ (1)
محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں گزشتہ 90سال میں تاریخ کی سب سے زیادہ بارش ہوئی، صرف 12گھنٹے میں 231ملی میٹر برسات ریکارڈ کی گئی۔ 13برس بعد حب ڈیم میں 338.5 فٹ کی سطح عبور ہوئی۔ کراچی میں صرف ماہِ اگست کے دوران 484ملی میٹر(یعنی 19انچ) بارش ریکارڈ کی گئی۔ طوفانی بارشوں کے پانی سے نالے اور نکاسی آب کی لائنیں اُبل پڑیں جس سے شہری کچی آبادیاں، مضافاتی دیہی اور شہری علاقے زیرِ آب آگئے۔ پورے شہر میں نظام زندگی درہم برہم ہوگیا۔ 27اگست کو کراچی کی مرکزی شاہراؤں پر سیلابی پانی کے باعث گھنٹوں ٹریفک جام رہا۔