گوادر شہر کا مغربی ساحل مقامی کشتی ساز مزدوروں کا قدرتی صنعتی زون ہے۔ جہاں صدیوں سے ان کے آباؤ اجداد کشتی سازی کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں مگر اب یہ کشتی ساز مزدور اپنے روزگار اور مقام کے مستقبل سے متعلق پریشان ہیں۔ کشتی سازوں کو مقامی لوگ ‘‘واڑو’’ کہتے ہیں۔
Posts By: جاوید بلوچ
گوادر، جیونی کے باسی دہائیوں سے پیاسے۔
گوادر کا تحصیل جیونی جسے مقامی طورپر جیمڑی کہا جاتا ہے اپنے محل وقوع کی وجہ سے بلوچستان کا امیر ترین علاقہ ہے۔ ایرانی سرحد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہاں سرحدی کاروبار، ڈیزل اور سمندری راستے سے سال بھر میں سمندری و خشکی کے راستے تجارتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں لیکن یہ وہ بدقسمت شہر ہے جہاں کے باشندوں کو پانی مانگنے پر گولیاں ملی ہیں۔ بقول مقامی لوگوں کے کہ یہاں ڈیزل تو آسانی سے مل جاتا ہے مگر پانی نہیں ملتا۔ جیونی میں آج سے تیس سال پہلے پانی کے لیے احتجاج کرنے پر لوگوں پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔ اس واقعے میں تین معصوم شہری ہلاک ہوئے تھے۔ آج بھی قوم پرست جماعتیں ہر سال اکیس فروری کو شہدائے جیونی کا دن مناتی ہیں مگر انہی قوم پرستوں کی جماعتیں کئی مرتبہ وزارتوں میں آئی ہیں، حکومتوں کے ساتھ رہے ہیں یا اسمبلیوں میں موجود رہی ہیں لیکن پھر بھی جیونی کو پانی نہ مل سکا۔
سمندر ہماری ماں ہے مگر اب ڈاکوئوں کے حوالے ہے
ماسی جماعتی کی سر پر ایک تھالی ہے جس میں وہ ٹافیاں، پاپڑ اور بسکٹ وغیرہ رکھ کر اسکول کے گیٹ پر بیٹھ کر تفریح کے وقت یہ چیزیں بیچتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے ان کے بچے ان سے خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہے “ماشاء اللہ میرے دو بیٹے ہیں دونوں ماہی گیری کرتے ہیں، لیکن سمندر میں کبھی روزگار ہے تو کبھی بچے خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔ اس لیے میں بھی یہ ٹافیاں وغیرہ یہاں آکر بیچتی ہوں تاکہ گزارا ہوجائے”۔ ماسی جماعتی اب سے کئی سال پہلے یہ تھالی سر پر اٹھانے اور ایسے سوداگری کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ ان کے بقول اس وقت سمندر آباد تھا۔ وہ بتاتی ہے کہ “ہم سمجھتے تھے سمندر ہماری ماں ہے، ماں کبھی بھی اپنے بچوں کو بھوکا نہیں سلاتی مگر اب ہمارا سمندر ڈاکوئوں کے حوالے ہے” وہ غیر قانونی جالوں کے استعمال اور ٹرالر مافیا کی طرف اشارہ کرتی ہوئی کہہ رہی ہیں کہ اب ان کی وجہ سے ماہی گیروں کے گھروں کے چولہے بْجھ چکے ہیں۔ اب تو سمندر کو بھی قحط سالی کا سامنا ہے۔
ریڈیو پاکستان گوادر ہر وقت سوگ میں کیوں ہے؟
ریڈیو اس دورِ جدید میں بھی خبروں، معلومات اور موسیقی کے لیے اپنی اہمیت اور مقبولیت کی وجہ سے کئی علاقوں میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ خاص کر بلوچستان میں جہاں اکیسویں صدی میں بھی کئی علاقے انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ایسے میں ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے لیے واحد ذریعہ نشریات ریڈیو ہے۔ بی بی سی اردو کی ریڈیو پر نشریات بند ہونے کا شاید سب سے بڑا صدمہ بلوچستان کے لوگوں کو ہوا۔
15 جولائی ترک جشن جمہوریت میں گزر گیا مگر بلوچستان ہمیں یاد نہ رہا
15 جولائی کو ملکی الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیٹھے وسیع تر سوچ رکھنے والے جمہوریت پسند، اہلِ دانش و قلم اورعوام نے جمہوریہ ترکی کے ساتھ برادرانہ و جمہوریت پسندی کی مشترکہ سوچ رکھنے کی وجہ سے بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ منایا اور ترک عوام کو خوب داد دی، جنھوں نے 2016 کو اسی دن ترک مسلح فوج کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر مارشل لاء کے نفاذ کو ناکام بنایا۔ ترک عوام نے اس دن ثابت کیا کہ انھیں آمریت کسی بھی صورت قبول نہیں اور ہر حال میں ترکی ایک جمہوری ملک ہی رہے گا۔ترک فوج بھرپور تیاری کے ساتھ شہروں میں اتر چکی تھی۔
لالا صدیق بلوچ: “آپ نڈر تھے، تبھی تو مجھے ڈر تھا!’’
لالا آپ کو تو پتہ ہے کہ بلوچستان اور اس کے احوال قومی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نزدیک شاید ہی کالعدم تھے جو آنے کی غلطی نہیں کرتے تھے اب بھی یہ رواج کچھ کم سہی مگر برقرار ہے.