وہی حالت اب بھی ہے جہاں انسان کو شعور نہیں تھا، جہاں انسان باقی جانوروں کی طرح ایک جانور تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کو چیزوں کی پرکھ ہوئی اور رشتوں کی پہچان ہوتی گئی اور ایک معاشرے کی تشکیل ہوتی گئی۔ اْس معاشرے میں اْس حیوان کو ایک نیا نام ملا، مثلاً سماجی جانور۔ پھر انسان ماورائیت و مابعد اطبعیات و دیومالائی دور میں داخل ہوکر ایک ایسے نکتے پر آن پہنچا جہاں اس نے سوچنا شروع کیا اور سوال کرنے لگا۔ پھر وہ مادیت کی اولیت کو تسلیم کرتے ہوے معاشرے کی حقیقتوں کو ڈھونڈنا شروع کردیا اور یوں فلسفے نے جنم لیا جہاں مایٹس شہر میں تھیلیز نامی شخص نے کہا کہ دنیا کی ہر چیز پانی سے وجود میں آئی ہے۔