تیری یاد آئی ۔ ایم ایم عالم!

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

پاکستانی اخبارات میں وقتاً فوقتاً جنگ عظیم دوئم میں حصہ لینے والے مغربی ممالک کے ہیروز کے انتقال کی خبریں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ ان ممالک کو اس جنگ میں فتح ہوئی تھی یا شکست ، یہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کریں۔ اس کے برعکس مسلم امہ کا المیہ یہ ہے کہ اول تو انہوں نے اپنے اپنے ہیروز بنائے ہوئے ہیں وہ اپنے ہیروز کو متنازعہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ہاں ! البتہ قوم پر کوئی ابتلاء آجائے تو انہیں یہ ہیروز یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

“Daughter of Destiny”

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

اس نے اپنی کتاب Daughter of Destiny میں خود کودخترمشرق قرار دیاتھا لیکن دنیا نے اس کامقام اس سے بھی سوا جانا۔ نہیں یقین تو 1996؁ء کی گنزبک آف ورلڈریکارڈ اٹھاکردیکھ لیجیے جس میں اسے عصر حاضر کی مقبول ترین سیاست دان قراردیاگیاورنہ 4؍مئی 1996؁ء کے ’ٹائم‘ اور’آسٹریلین میگزین‘ دیکھ لیجیے جن میں اسے دنیا کی سو طاقتور ترین خواتین میں شمار کیاگیاتھا۔اعزازات اس کے بے شمارہیں، وہ کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم تھی، وہ پاکستان کی سب سے کم عمروزیراعظم بھی تھی، وہ پاکستان کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور سب سے زیادہ اعزازیافتہ وزیراعظم بھی تھی۔

قائداعظم ۔کام ابھی باقی ہے!

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

قائداعظم محمد علی جناحؒ کا یوم ولادت مناتے ہوئے راقم کے ذہن میں اواخر نومبر1985؁ء کے ایک واقعے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ روزنامہ’’ نوائے وقت ــ‘‘اسلام آباد (تب یہ راولپنڈی سے شائع ہوتا تھا) کے رپورٹر جناب نواز رضا راولپنڈی پریس کلب کے صدر منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے ماہوار پروگرام’’میٹ دی پریس‘‘ کا آغاز کیاتھا جس میں ہر ماہ ملک کی نمایاں شخصیات کو اظہارخیالات کیلئے مدعو کیا جاتا تھا۔جناب نواز رضا پروگرام کی پریس ریلیزتمام اخبارات کوجاری کروانے کیلئے خود ہی سپرمارکیٹ میں واقع پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) کے دفتر آجایا کرتے تھے ۔

گل جی: فیصل مسجد کے ہلال کے مسئلہ پر انہیں بلیک میل کیاگیا!(1)

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

20؍دسمبر 2007؁ء کو گل جی اپنی اہلیہ اور ملازمہ کے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر مردہ پائے گئے، انہیں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ گل جی کا قتل فن کا قتل تھا، ثقافت و تہذیب کا قتل تھا، حسن، شرافت اورنیک نامی کا قتل تھا ، اورایک عہد اور ایک تاریخ کاقتل تھا۔یہ عہد 16؍دسمبر 2007؁ ء کو ختم ہو چکاتھااور تاریخ مٹ چکی تھی لیکن چار روز تک کسی کوخبرتک نہ ہوئی تھی۔ کیا بے خبری تھی کہ وطن کی آن ، بان اور شان کواپنے فن کے ذریعے دنیابھر میں چارچاند لگانے والا اور وطن کے کینوس میں ان گنت رنگ بکھیرنے والا خود خوں رنگ ہوچکا تھا۔

East Pakistan: ‘Witness to Blunders'(4)

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

1998ء میں سقوط ڈھاکہ پر ایک ضخیم دستاویز مرتب کرتے ہوئے راقم نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریک تکمیل پاکستان کے سربراہ اور وزیر تاحیات محمود علی سے ایک انٹرویو کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے پاسپورٹ پر بنگلہ دیش کا ویزہ نہیں لگوایا کہ کہیں بنگلہ دیش کا ویزہ لگنے سے پاکستانی پاسپورٹ ناپاک نہ ہوجائے، جنرل نیازی کے بارے میں محمود علی کا کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کی بجائے وہ مرکیوں نہ گیا۔ جب راقم نے ان کی توجہ جنرل نیازی کے اس بیان کی طرف دلائی کہ مذاکرات ہتھیار ڈالنے کیلئے نہیں بلکہ جنگ بندی کیلئے کیے گئے تھے اور ان مذاکرات کی آڑ میں غیر بنگالی باشندوں جن میں خواتین بڑی تعداد میں تھیں، کوبرما کے راستے مغربی پاکستان روانہ کیا گیا تھا تاکہ بھارتی فوجیوں اورباغیوںکے ڈھاکہ میں داخلے کی صورت میںبالخصوص ان خواتین کی عزتیں پامال نہ ہوں،تو محمود علی کچھ دیر کیلئے سوچ میں پڑ گئے اور پھر کہنے لگے شاید وہ ٹھیک کہتا ہے۔اس کے بعد راقم نے محمود علی کو ایک ریٹائرڈ بھارتی جنرل کے بارے میں بتایا جس کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے بعد بھی بھارتی فوج کو مشرقی پاکستان پرقبضے کیلئے ایک ایک انچ پر جنگ لڑنا پڑی کیونکہ مواصلات کا نظام تباہ ہوجانے کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں پاک فوج کے افسران و جوان جنگ بندی سے بے خبر تھے۔جہاںتک سفارتی محاذ کا تعلق ہے، چین مشرقی پاکستان میں سیاسی سمجھوتے کیلئے دہائی دے رہا تھا لیکن صدر یحییٰ خان کو اپنی بد اعمالیوں سے فرصت نہیں تھی، انہیں اس وقت ہوش آیا جب پانی سر سے گزر چکاتھا، اس لئے اقوام متحدہ میں ہماری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔

East Pakistan: ‘Witness to Blunders'(3)

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

اس صورتحال میں ملک کی چوٹی کی قیادت اقتدار کی ہوس میں اس قدر اندھی ہو چکی تھی کہ اسے ملک کی سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ مکتی باہنی کے ہاتھوں ہونے والے ہزاروں معصوم مرد، عورتوں اور بچوں کے قتل عام کی کسی کو پرواہ نہیں تھی۔جنرل یحییٰ خان ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں یہ باور کرایا گیاتھا کہ انتخابات میں کوئی بھی سیاسی پارٹی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔دوسری طرف شیخ مجیب اپنی منصوبہ بندی کیے بیٹھے تھے اور انہوں نے اپنی سیاسی جنگ میں تمام ہتھیار استعمال کیے۔ انہوں نے اپنا وقت اور پراپیگنڈہ مکمل طور پر مشرقی پاکستان کیلئے وقف اور مرکوز کر رکھا تھا۔

East Pakistan: ‘Witness to Blunders'(2)

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

اس دور میں ہونے والی اقتصادی و صنعتی ترقی سے قطع نظر صدرایوب بہرحال ایک آمر تھے اور کوئی بھی آمر بلا شرکت غیرے دائمی اقتدار کا خواہاں ہوتا ہے اور ایوب خان کو بھی اس سے استثنیٰ نہیں تھا۔چنانچہ صدرایوب خان نے 1962ء میں ملک میں ایسا آئین نافذ کیا جو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح گھوم پھر کران کی اپنی ذات واختیارات پر مرتکز تھا اور 1964ء میں اس آئین کے تحت متنازعہ انتخابات کے ذریعے جس میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح حزب اختلاف کی متفقہ امیدوار تھیں، ایوب خان پانچ سال کی مدت کیلئے دوبارہ صدر بن بیٹھے، صدرایوب کی انتخابی جیت کو یقینی بنانے کیلئے۔

East Pakistan: ‘Witness to Blunders’

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

نصف صدی قبل رونما ہونے والا سقوط مشرقی پاکستان تاریخ اسلام کا بدترین سانحہ تھا جس پر بہت کچھ لکھاجاچکا ہے اورآئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔اس سانحے کے بہت سے پہلو تھے، کچھ مصنفین نے اسے احساس محرومی کا نتیجہ قرار دیا توبہت سے مبصرین نے اسے محض اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی سے گریز جبکہ دیگر نے اسے صرف پاکستان کی فوجی شکست سے تعبیر کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بقول قابلؔ اجمیری ؎

ثریا شہاب اور ریڈیوپاکستان کی بے حسی!

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

1980ء؁ کی دہائی تک کا عرصہ ریڈیوپاکستان کا عہد زریں کہلاتا ہے، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ”پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی“ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پھر چراغوں کی لو مدھم پڑتی چلی گئی۔ بہرحال ریڈیوپاکستان کے مذکورہ عہد زریں میں صوتی دنیا کے افق پرمتعدد درخشاں ستارے نمودار ہوئے اور اپنے گہرے نقوش چھوڑ گئے، انہی میں ایک نمایاں ستارہ ثریاشہاب طویل علالت کے بعد 13ستمبر 2019؁ء کوہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ انا للہ انا علیہ راجعون!

اوراب بھارت کی نشریاتی جارحیت!

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ویسے تو بھارت 1947ء؁ میں تقسیم برصغیر کے فوراًبعد سے پاکستان کے خلاف صوتی محاذ پر سرگرم رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ اپنے الیکٹرانک میڈیا نیٹ ورک کا وسیع جال بچھایا ہے لیکن وزیراعظم نریندرا مودی کی پہلی میعاد کے اواخر میں بھارت نے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ تیز کردیا تھا جسے انتخابات جیتنے کا ہتھکنڈہ سمجھ کر پاکستان میں نظر انداز کر دیاگیا۔ تاہم دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد وزیراعظم مودی نے اپنے بدنام زمانہ”ہندتوا“ ایجنڈے کو پروان چڑھاتے ہوئے جہاں بالاکوٹ میں جارحیت کا ارتکاب کیا وہیں انہوں نے سفارتی و نشریاتی محاذوں کو پاکستان کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال کرنا شروع کردیا۔