ایک دور میں حکومت وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا تھا جس دوران بلوچستان میں امن وامان قائم ہوا۔ میرٹ کا تقدس بحال ہوا،عوام کو روزگار مہیا کیا گیا اور نئی درسگاہیں تعمیر کی گئیں۔ڈاکٹر مالک بلوچ بلوچستان کے چھوٹے بڑے مسائل سمیت قومی مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوششیں کرتے رہے جن میں سر فہرست لاپتہ افراد کا مسئلہ تھا لیکن اس حوالے سے اپنی بے بسی کا اظہار وزرات اعلی ٰکے دور میں کیا۔آپ ایک عوامی اور مخلص لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔آپکی سیاسی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ڈھائی سالہ دور میں صحافیوں نے غیر جانبدارانہ تجزیے بھی انکے حق میں کئے اور کئی مقامات پر انکے سیاسی حریفوں نے بھی انکی مختصر مدت جوکہ 2013 سے 2015 تک کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت کی تعریفیں کیں۔
Posts By: نعیم بلوچ
بلوچستان میں منشیات کا بڑھتا رجحان
اگر منشیات کی بات کی جائے تو پورے بلوچستان میں تیزی سے بڑتی جارہی ہے وڈھ بلوچستان کے پسماندہ ترین تحصیلوں میں شمار ہوتا ہے وڈھ میں پانچ سال پہلے منشیات کے عادی افراد کی تعداد چند ایک تھی اب اگر دیکھا جائے تو وڈھ جیسے پسماندہ علاقہ میں عادی افراد کی تعداد 500سوتک پہنچ گئی ہے تو پورے بلوچستان کی حالت کیاہوگی۔ منشیات کے عادی افراد کو گھر کا پتا چلتا ہے اور نہ ہی بھائی بہن اور بیوی بچوں کا وہ گھر کے ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی کام کے اگر ان کو ایک دن نشہ نہیں ملے تو وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتے ہیں اگر وڈھ کو دیکھا جائے تو وڈھ میں ہر قسم کی منشیات ا?رام سے مل جاتی ہے۔
لاوارث بلوچستان
موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے کھوکھلے دعوؤں کے پول کھول گئے، بارش کیا ہوئی عربوں اور کروڑوں روپے مالیت سے بنے روڈ سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ ہر طرف غریبوں کی بستیاں ڈوب رہی ہیں غریب رو رہا ہے سینکڑوں لوگ بے گھر ہوئے،خدا سے مدد مانگی جارہی ہے زمینی خداؤں نے تو صرف قبضہ جما رکھا ہے۔ڈوبے ہوئے بستیوں میں سوائے فوٹو سیشنز کے کچھ نہیں ہو رہا۔ فلاں خان نے فلاں جگہ کا دورہ کیا اور فوٹو نکال کر رفو چکر ہوگیا۔ ہر جانب افرا تفری کا عالم ہے لوگوں کی امیدیں اب صرف خدا سے جڑی ہیں۔
بلوچستان کی نا اہل حکومت اور طلباء و طالبات آمنے سامنے
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آن لائن کلاسز جوکہ ایچ ای سی کی جانب سے بغیر انٹرنیٹ کرائی جارہی ہیں بلوچستان میں انٹرنیٹ و دیگر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جس پر طلباء و طالبات سہولیات کے بغیر آن لائن کلاسز کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔گزشتہ روز جب طلباء و طالبات اپنے جائز مطالبات کے لیے کوئٹہ میں پْر امن احتجاج کر رہے تھے تو کوئٹہ پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور گرفتاریاں کی گئیں جسمیں طلباء کے ساتھ ساتھ طالبات کے ساتھ بھی بدتمیزی کی گئی انہیں گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈالا گیا جوکہ حکومت بلوچستان کے لیے شرم کا مقام ہے۔
آن لائن کلاسز سے طلباء کو درپیش مسائل
جس طرح آپ سب جانتے ہیں کورونا وائرس جوکہ ایک عالمی وباء ہے جس نے پوری دنیا کولپیٹ میں لے رکھاہے اور پاکستان بھی اس سے بہت متاثر ہورہا ہے جسے مدِ نظر رکھ کر پورے ملک کے تعلیمی ادارے گزشتہ کئی عرصے سے بند ہیں۔حالیہ دنوں میں ایچ ای سی کی جانب سے ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسزکے اجراء کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس کے ردِ عمل میں ملک کے تمام طلباء و طالبات سراپا احتجاج ہیں جنکا مطالبہ صرف یہی ہے کہ ملک بھر میں ایسے علاقے ہیں جہاں انٹرنیٹ موجود ہی نہیں ہے وہاں انٹرنیٹ مکمل طور پر بحال کیا جائے اور جہاں جہاں انٹرنیٹ موجود بھی ہے۔
جعفرآباد کے طلباء و طالبات آئی بی اے سکھر کی اسکالرشپ سے محروم
90% سے بھی زیادہ طالبعلم آئی بی اے سے گریجوایٹ ہوکر نوکریوں پر تعینات ہوجاتے ہیں۔70% طالبعلم پورے ملک سے یہاں داخلہ لیتے ہیں جنکو آئی بی اے اسکالرشپ پر پڑھاتا ہے مفت کتابیں رہاش بھی و دیگر ضروریات کی سہولت بھی مہیا کی جاتی ہیں جوکہ ایک خوش آئند اور قابل تعریف بات ہے۔لیکن بدقسمتی سے ضلع جعفرآباد کے طالبعلم 2018 کے بعد اس بہترین ادارے میں اسکالرشپ پر داخلے لینے سے محروم ہیں Coordinator NTHPسے اس حوالے سے جب میرا رابطہ ہوا انکا کہنا تھا کہ OGDCL کی جانب سے جانب سے نام نکالا گیا ہے۔
بلوچستان کے جوان سراپا احتجاج
تعلیمی ادارے بلوچستان میں اتنے ہیں کہ یونیورسٹی میں کسی ڈپارٹمنٹ کی 40 سیٹوں پر 4 ہزار فارم جمع ہوتے ہیں اور بیروزگاری کا کیا کہیں نائب قاصد کی پوسٹ کے لئیے ماسٹر ڈگری کے لوگ بھی دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ہاں اگر وفاق میں کوئی پوسٹ آجائے تو اس پر بھی جعلی لوکل ڈومیسائل کا حامل فرد بلوچستان کے کوٹے پر بھرتی ہوجاتا ہے جس نے کبھی بلوچستان دیکھا بھی نہیں ہوتا۔چلو آتے ہیں اصل موضوع پر، کورونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کالجز اسکولز یونیورسٹی میں آن لائن کلاسز کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن فیصلہ کرنے والے زمینی حقائق سے ہی واقف نہیں کہ بلوچستان کے 65% فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ نہیں،ہاں اگر کہیں موجود بھی ہے تو اسکے چلنے کی رفتار کچھوے سے بھی کم ہے یعنی نہ ہونے کے برابر۔
کورونا وائرس کو لے کر کچھ غلط فہمیاں
کورونا وائرس ایک مہلک عالمی وباء ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان میں تیزی سے منتقل ہوتا ہے۔لیکن شعور کی کمی کہوں، خوف یا کم عقلی،کورونا وائرس کی تمام تر علامات کو خود میں محسوس کرنے کے بعد بھی لوگ ٹیسٹ کرانے سے گھبراتے ہیں کس وجہ سے “کہ حکومت صحیح ٹیسٹ نہیں کرتی، یہ سب ڈرامہ ہے ہر ٹیسٹ کرانے والے کو پازیٹو رزلٹ دیا جائیگا اگر کورونا پازیٹو آگیا تو ہمیں زبردستی کورونا ٹیم اٹھا لے گی، ہمارے معاشرے میں بدنامی ہوگی کہ فلاں کو کورونا ہے ہمیں ماردیا جائیگاا و دیگر مختلف افواہیں آپکو اپنے ارگرد سننے کو ملینگی”
قلم صحافی کا ہتھیار،،، مگر
قلم وہ ہتھیار جس کے سامنے بڑے سے بڑے ہتھیار ہار مان جائیں لیکن اس قلم کا استعمال آپکو صحیح طرح سے آتا ہو بدقسمتی تو یہ ہیموجودہ دور میں قلم کے استعمال کو غلط استعمال کیا جارہا جس کا نقصان پورا معاشرہ بھگت رہا ہیقلم ہی آپکی سب سے بڑی طاقت ہے قلم آپکا سب سے بڑا ہتھیار ہے قلم کی یہ نوک بڑی بڑی گولیوں سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہیقلم کے استعمال کو جب معاشرے کے نا اہل اور بکاو لوگ غلط استعمال کرتے ہیں تو اس کے صحیح استعمال کرنے والے بھی بدنامی کا سامنا کرتے ہیں چند غلیظ لوگوں کی وجہ سے صحیح لکھنے والے کو بھی غلط تنز و طعنے سہنے پڑتے ہیں۔
یوتھ پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر، جوانوں کا وقت ضائع
جی ہاں یہ داستان ہے یوتھ پارلیمنٹ عرف یرغمال پارلیمنٹ بلوچستان چیپٹر کی ایک آن لائن لنک کے ذریعے بلوچستان ے مختلف اضلاع سے جوانوں نے اس میں غالباََ جولائی 2019 میں فارم جمع کئیے، بہت سی فی میلز بھی شامل تھیں یہ تمام بلوچستان کے پسے ہوئے لوگ یوتھ پارلیمنٹ میں کچھ سیکھنے کو گئے تھے،اسکا انٹرویو سرینا ہوٹل کوئٹہ میں منعقد ہوا انٹرویو لینے کے لئے معروف اینکر پرسن جوکہ یوتھ پارلیمنٹ کے مرکزی چیئرمین ہیں اور اسکے علاوہ بلوچستان سے منتخب صدر شبیر بلوچ و دیگر موجود تھے۔ ایک سال ممبر شپ کی فیس500 اور مختلف ٹائم پیریڈ کی مختلف تھی۔