سیاسی مباحثوں سے ہمیں فرصت ہی نہیں ملتا کہ ہم معاشرے میں رونماہونے والی دلسوز واقعات کا تذکرہ کریں اور ان کے وجوہات بیان کریں۔ سنجیدہ معاملات کا ذکر کرنا جب محال ہو تو واقعات میں حددرجہ اضافہ ہوجاتاہے۔ کہیں دور دور تک ان افسوسناک واقعات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش بھی نہیں کی جارہی ہے۔
Posts By: نصیر بلوچ
آواران ٹاؤن کا اکلوتا بند لائبریری کا معمہ
2018 میں اس لائبریری کے لئے 99 لاکھ منظور ہوئے تھے۔ لائبریری کی تعمیراتی کام 2020 کو مکمل ہوا اس دن سے لیکر آج تک لائبریری تالہ بندی کا شکار ہے۔ بی ایس او پچار پچھلیکئی دنوں سے لائبریری بحالی مہم چلارہا ہے، مہم بند لائبریری کے سامنے چٹائی بچھاکر اسڈی سرکل لگانے کے صورت میں چلایا جارہا ہے۔
سیاسی گہماگہمی
وزیر منصوبہ بندی ظہور بلیدی کا قلمدان واپس لینے کا مطلب آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ بزنجو حکومت کو ظہور بلیدی چلارہے تھے۔ عبدالقدوس بزنجو صرف نام کے وزیراعلیٰ تھے باقی سارے کام ظہور صاحب کے صلح و مشورہ سے ہوتے ر ہے ہیں۔ بزنجو حکومت کا کچا چھٹا یار محمد رند نے جرگہ شو میں فاش کیا۔ یار محمد رند کا کہنا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کو حکومت 3 ارب کے عیوض دی گئی ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے یار محمد رند اتنے ناسمجھ نہیں کہ ایسی کوئی سنی سنائی بات مین اسٹریم میڈیا میں کہہ دیں۔
گوادر کی ترقی اور مقامی لوگوں کے تقاضے
گوادر سی پیک کا مرکز ہے جس کی ترقی کے چرچے پورے ملک میں ہورہے ہیں۔ گوادر کو کبھی فیز 1 اور کبھی فیز 2 میں ترقی دینے کی نوید سنائی جاتی ہے۔ ملکی معیشت کو سی پیک سے مستحکم کرنے کی خواہاں حکومت کو گوادر شہر کے مسائل کا کوئی ادراک نہیں۔ گوادر کا اصل چہرہ کچھ اور ہے جہاں ترقی کی باتیں ضرور کی جاتی ہیں لیکن ترقی زمین پر نظر نہیں آتی۔ لیکن گوادر کے مسائل سب کے سامنے عیاں ہیں ہاں البتہ اگر کوئی اندھا بہرہ بنے انہیں مسائل نظر نہ آئیں جیسے کہ گوادر کے غیر عوامی نمائندہ حمل کلمتی و سنیٹر کہدہ بابر کو تو گوادر مسائل سے پاک جنت نظر آتا ہے۔ 2013 سے جی ڈے اے کہتا آرہا ہے کہ مسائل صرف دو مہینے کے بعد حل ہوجائیں گے پر افسوس آج 2022 تک مسائل جوں کے توں ہیں۔ اور آج بھی جب ہم گوادر کتب میلہ پر موجود تھے تو “گوادر کی ترقی اور مقامی لوگوں کے تقاضے” کے موضوع پر ایک پروگرام کا انعقاد کیاگیا تھا جس میں جی ڈی اے ڈائریکٹر مجیب قمبرانی کے بھی وہی الفاظ تھے کہ دو ماہ کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
آئی جی بلوچستان اور حکومتی مبالغہ آرائی
آئی جی بلوچستان طاہر رائے کا تبادلہ کرکے محسن بٹ کو بلوچستان آئی جی تعینات کردیاگیاہے۔ گزشتہ برسوں میں کئی غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان پولیس میں بھرتی ہوئے ہیں جس میں آواران سے چند ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی شامل ہیں۔ ان نوجوانوں سے ابھی بھی کوئی پوچھے وہ آئی جی طاہر رائے کو اپنا مسیحا گردانتے ہیں۔
موجودہ حالات اور سوالات
ایک طرف عدم اعتماد کی باتیں گردش کررہی ہیں تو دوسری جانب پیپلز پارٹی نے مارچ کا اعلان کررکھا ہے۔ ق لیگ سے ملاقات کے بعد اپوزیشن ناامیدی کا شکارہے۔ ق لیگ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کھڑی ہوسکے۔ اپوزیشن نے جب سے عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑ رکھا ہے تب سے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ یوں تو انتقامی کاروائیاں روزاول سے ہوتی آرہی ہیں لیکن اب حکومت نے بلاسوچے سمجھنے والا معاملہ اپنا رکھا ہے۔ محسن بیگ کی گرفتاری اور اسکے بعد چند مزید نامور صحافیوں کی گرفتاری کے انکشاف سے ثابت ہوتاہے کہ حکومت ڈری ہوئی ہے۔ کسی طرح اگر اپوزیشن کو ق لیگ کا اعتماد حاصل ہوا تو اس حکومت کی چھٹی کرائی جاسکتی ہے۔ بلوچستان کی سرد سیاست میں یارمحمد رند بہت سرگرم ہیں۔
وفاق اور بلوچستان
طویل احتجاج کے بعد بھی ٹرالرزمافیا کا خاتمہ ممکن نہیں ہوپایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کے سیاسی رہنمائوں نے سوائے چند ایک کو چھوڑ کر کبھی بھی اپنے وعدوں کوپورا نہیں کیا۔ جناب وزیراعظم عمران خان کو ہی دیکھ لیں جو موجودہ دور میں اس کی سب سے بڑی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر اور باہر کے ملکوں سے لوگوں کے یہاں آکر نوکریاں کرنے کے دعوے خاک میں مل گئے۔ سری لنکن منیجر کے ساتھ جو حشر کیا گیا اس کے بعد کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ باہر سے لوگ نوکریاں کرنے یہاں آئیں گے؟ پچھلی حکومتوں نے جو ملک میں کافی حدتک ایک پرامن فضا قائم کی تھی اس حکومت کے آتے ہی انتشار برپا ہوگیا۔
پولیٹیکل انجینئرنگ
سی ایس ایس پاس آفیسر کو جب ایک انگوٹھا چاب ڈکٹیٹ کرے تو انتہائی دکھ ہوتا ہے۔ لیکن یہی حقیقت ہے اور معاشرے کی ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ۔ سیاسی پارٹیوں نے سی ایس ایس کوالیفائڈ آفیسران کو ایک چپڑاسی سا بھی اہمیت نہیں دیا ہے۔ اسے پولیٹیکل انجیئرنگ کہا جاسکتا ہے، ہمارے پورے ملک کا یہی حال ہے آفیسران کی ریموٹ کنٹرول ایم پی ایز اور ایم این ایز کے ہاتھوں میں ہے۔ جب چاہا بٹن دبادیا اور بازی پلٹا دیا۔
ریکوڈک غیرآئینی ڈیل
بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے کا سلسلہ نہ نیا ہے اور نہ ہی قابل فہم، پاکستان ایک وفاق ہے جس کے استحکام کیلئے ہم آہنگی اور اتفاق کو برقرار رکھا جانا ضروری ہے۔ قوموں کے احساسِ محرومی کو دور کرکے مطمئن اور آسودہ رکھ کر ہی وفاق کو محفوظ و مستحکم بنایا جاسکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ آئے روزوفاق نت نئے طریقوں سے بلوچستان کے مسائل کولوٹنے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔
گوادر کو حق دو بلوچستان کو حق دو میں کیسے تبدیل ہوا؟
“ہر کمالے راز والے” یعنی ہر بلندی کو پستی سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور ہر پست چیز کبھی نہ کبھی بلند ہوجاتی ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔ علامہ اقبال نے اس کو یوں بیان فرمایا ہے: