ہم ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں شخصیات اورچہروں کوپوجا جاتا ہے۔ ہم بولتے ہیں تو صرف اپنے لیے،آواز اٹھاتے ہیں اپنے مفاد کے لیے،پھر جب بول بول کر تھک جاتے ہیں تو سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔ لیکن کبھی سوچا ہے کہ ان پانچ ہزار ایک سو اٹھائیں سے بھی اوپر کی تعداد میں جو بلوچستان کے مسنگ پرسنز ہیں جن میں بچے، بزرگ، مرد اور خواتین بھی شامل ہیں ان کے گھر میں ماتم نہیں مچتا ہوگا؟ کیا ان کو کبھی سکون کی نیند نصیب ہوئی ہو گی؟ ان کا نوحہ بھی کوئی سن لے، ان کا درد بھی کوئی لکھے۔