ناہمواربھیڑ۔۔۔۔۔۔سڑک پر۔۔۔۔اورلوگوںکے دماغوںمیں،خیال اورواہموںکی صورت میں،زندگی کی علامت کے طورپرچلتارہتاہے۔۔۔بھیڑاَن دیکھے قانون کاپابندہوتاہے اُسے محض صوت سے نسبت ہے ٹھوس وجوداورحکم دینے والا مجسم فردجسے شناخت بھی حاصل ہو،بھیڑکوفوری نوعیت کاکوئی حکم نہیںدے سکتا۔۔۔بھیڑیااژدہام ۔۔۔۔متواتردن کی روشنی اوررات کے دورانیے میں۔۔۔لیکن سڑک پریہ ناہمواربھیڑعشاء کے اذان اورنمازکے بعداورپھیلتا جاتاہے مگرجوان ہوتی رات کی کُھلتی زلفوںکی خوشبوئیںاس کے تنفس پرحملہ آورہوجاتی ہیںاوریہ بھیڑ۔۔۔جس میںموٹرکاریںزیادہ دلآویزوجودرکھتی ہیںآہستہ آہستہ لاپتہ ہوتی جاتی ہیںجیسے خوبصورت بلوچ نوجوان خوابوںکے ریوڑوںکوہانکتے ہانکتے سرسبزچراگاہوںکے سرابوںمیںاترکردن کے ستارے بن جاتے ہیں۔۔۔اورخوابوںکے ریوڑواپس بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے الائوجلائے خوب صورت بلوچ نوجوانوںکے زانوںپرسرٹیک کراپنے گدڑیاکاانتظارکرتی ہیں۔۔۔رات پھرحملہ آورہوتی ہے ۔فصیح اورسہیل سراب میںاترگئے۔