ان دنوں بلوچستان میں سیاسی گہما گہمی زوروں پر ہے لیکن بلوچستان کی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی گزشتہ دو انتخابات کے مقابلے میں اس بار ذرا مختلف نظر آرہی ہے اس بار کلہاڑی کو کہاں کتنی مضبوطی سے استعمال کرنا ہے اسکے لئے سردار اختر مینگل اور انکی جماعت نے بڑا کام کیا ہے اور اپنی حکمت عملی بھی سے تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہے۔
Posts By: شاہد رند
نیشنل پارٹی دور اقتدار کیا کھویا کیا پایا
میری آج کی اس تحریر کا مقصد ایک اعتراف ہے کہ جیسے آپ جیسا سوچتے ہیں ایسا ہوتا نہیں اور اگر کوئی چیز آپکی سوچ کے برخلاف ہوتو اسکا اعتراف کرنا چاہئیے۔ بات شروع کرتاہوںیہاں سے پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں نیشنل پارٹی مرکز میں اپوزیشن اور بلوچستان اسمبلی میں آزاد اراکین کے گروپ کی صورت میں نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ کا حصہ تھی۔
،2013تا2018، تین وزرائے اعلیٰ اور زرغون روڈ
دو ہزارتیرہ کے انتخابات سے قبل اور انتخابی مہم کے دوران اگر مستقبل کے وزرائے اعلیٰ کی فہرست پر جب کبھی بات ہوتی تھی تو ایک نام زبان زد عام تھا اور وہ تھا سردار اختر مینگل ۔۔۔۔بہت سے حلقوں کو یہ امید تھی کہ بلوچ قوم پرست جماعتیں نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل انتخابی اتحاد کرکے انتخاب لڑینگی اور سردار اختر مینگل اگلے وزیر اعلیٰ ہونگے۔
’’باپ ‘‘کی اونچی اڑان
بلوچستان میں ان دنوں ایک نئی جماعت کے نام کی گونج سنائی دے رہی ہے جی ہاں یہ نام ہے نومولود جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کاجسے عرف عام میں بلوچستان میں باپ کے نام سے پکارا جارہا ہے گو کہ اس جماعت کے پہلے بلامقابلہ صدر مرحوم جام یوسف کے صاحبزادے جام کمال ہیں لیکن سابق سینیٹر سعید ہاشمی کو اسکا بانی کہاجاتا ہے لیکن اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔
ماما صدیق بلوچ، ایک استاد ، ایک شفیق انسان
جس شخصیت کے متعلق آج کچھ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں اس شخصیت کے بار ے میں لکھنے کیلئے میں نہ تولفظ منتخب کر پاتا ہوں نہ لکھنے کی ہمت کرپاتا ہوں جی ہاں بہت مشکل ہوتی ہے کسی ایسی شخصیت کے بارے میں لکھنا جو والد کی طرح محترم اور استاد کی طرح شفیق انسان ہو صحافت میں قدم رکھنے کا موقع گو کہ مجھے روزنامہ انتخاب حب میں میڈم نرگس بلوچ اور انور ساجدی صاحب نے دیا لیکن اس شعبے میں انگلی پکڑ کر مجھے ماما صدیق بلوچ نے چلنا سکھا یا۔