پچھلے سال بولان میڈیکل کالج میں ہم نے ایک سیمینارمنعقد کیا جس کا موضوع تھا”Historical releations of Baloch and Pashtoon”جس میں کالج کے پشتون طلباء نے بھی ہمارے دعوت کے بعد ہمارا ساتھ دیا، پروگرام کا مقصد یہی تھا کہ ہم نفرتوں کی پروان چڑھتی فضاء کو کم کردیں ہم بھی ایک ساتھ اْٹھ بیٹھ سکیں، تجزیے،مباحثے،فیصلے کرسکیں، اسی پروگرام میں ایک سپیکر نے یہ جملہ کہا ”آج وہ لوگ بھی ایک ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر چائے پی سکتے ہیں جن کی پرتعیش تقریروں کے وجہ سے سینکڑوں بلوچ و پشتون نے اپنا خون بہایا اور آج تک ایک ساتھ نہیں بیٹھتے“ یہ واقعی یاد رکھنے والا جملہ ہے، ہمیشہ سے عوام کو جو بھگتنا پڑتا ہے وہ ابدی ہوتا ہے البتہ حکمرانوں کے لیے وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتا اور اسی حکمرانی کے چکر میں بلوچ پشتون تضادات والے کارڈ کو کہیں نہ کہیں استعمال کیا جاتا ہے۔