نظریہ ’’Ideology‘‘سیاست، فلسفہ، مذہب، اخلاقیات و فن کے بارے میں سوچ و افکار کے نظام سے عبارت ہے۔ نظریہ فرد کے داخلی رویے اور مخصوص ذہنی ساخت کا اظہار ہے جو وہ فطرت، سماج، فکر و سوچ کے نشوو نما کے قوانین کے بارے میں بیان کرتا ہے اور جس کا حتمی زاویہ نظر سماجی طبقات کے مفادات کا اظہار ہوتا ہے۔
Posts By: ڈاکٹر سلیم کرد
مباحثہ؛۔ادب زندگی و سیاست
ڈاکٹر کہور خان ،افضل مراد،وحید زبیر،اے ،ڈی بلوچ،پناہ بلوچ،قیوم بیدار،نور خان نواب ،ڈاکٹر تاج رئیسانی،محمد اکبر بگٹی،رستم بلوچ،نور خان بلوچ،حمل بلوچ،حنیف بلوچ،قاضی محمد ظریف،پروفیسر حسین ساجد اور چند دوسرے مکتبہ یوسف عزیز مگسی کی جانب سے ادب زندگی اور سیاست کے موضوع پر ایک مباحثہ بمقام ’’لنجو‘‘پارک ہزار گنجی بتاریخ 13جون 2021کو منعقدہ ہوا۔ مذاکرے… Read more »
پہلی گرفتاری
بیت الخلاء و غسل خانہ استعمال کے لئے باہر پانی کا ایک نل لگا ہوا تھاجس کے ساتھ چند لوٹے اور چند گھی کے خالی بڑے کنستر جن سے قیدی بیت الخلاء اور غسل خانہ استعمال کرنے کے لئے پانی لے جاتے،کھولیوں میں پیشاب کے لئے ایک ٹین دیا جاتا جس میں بغرض ضرورت قیدی پیشاب کرتے اور صبح اپنے ہی پیشاب کو بیت الخلاء کی نالیوں میں بہاتے ،پیٹ خراب ہونے کی صورت میں بھی مجبوری کے تحت یہی ٹین استعمال کیا جاتا، ہاں بیرکوں میں بیت الخلاء بنے ہوئے ہوتے لیکن ان کا درازہ آدھا ہوتا تاکہ نمبر دار بیت الخلاء استعمال کرنے والے قیدی کو چیک کرسکے۔
پہلی گرفتاری
اس دن سال 1973ماہ اگست کی بیسویں تاریخ تھی،بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور پشتون اسٹوڈ نٹس کے اراکین صبح دس گیارہ بجے کے قریب سائنس کالج کوئٹہ کے گیٹ کے سامنے جمع ہونے لگے،سائنس کالج کے دونوں گیٹوں کے باہر پولیس اور فیڈرل سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری ڈنڈوں‘بندوقوں اور آنسو گیس کے شیلوں سے لیس کھڑی تھی۔ اس احتجاج میں ہمارے قائدین میں گلزار احمد بادینی جو سائنس کالج کوئٹہ یونین کے نائب صدر بھی تھے، پیش پیش تھے اور محمد عمر مینگل جو ڈگری کالج کوئٹہ کے طالب علم تھے، نمایاں کردار اداکررہے تھے۔
بلوچستان۔ مصائب و آلام کی غیرمختتم کہانی
یہ سال 1973ء ماہ اگست کے دن تھے بالعموم بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں ہنگامہ خیز سیاست اپنے زوروں پر تھی اس مہینے کے دوسرے ہفتے کے دوران بلوچستان کی سیاست کے چوٹی کے رہنماؤں میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری گرفتار کر لیے گئے۔ یوں تو 15فروری1973ء کے دن سے احتجاج اور گرفتاریوں کے سلسلے کا آغاز ہوچکا تھا جب پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت نے گورنر بلوچستان میرغوث بخش بزنجو کو سبکدوش کرکے ان کی جگہ نواب اکبر خان بگٹی کو بلوچستان کا گورنر نامزد کیا اور اس کے ساتھ ہی بلوچستان اور صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلماء اسلام کی مخلوط حکومتیں توڑ دی گئیں۔
دشت جلب گو ہندان میں لائبر یری کا قیام
کریم امن فاؤنڈیشن (ہیلتھ و ایجوکیشن سروسز) کی زیر نگرانی بابو عبدالرحمن کرد کے نام سے ایک پبلک لائبریری کا قیام بمقام دشت جلب گندان ضلع مستونگ میں عمل میں لایا گیا۔
میر یوسف عزیز مگسی عمر رفتہ کی مختصر جھلک
میر یوسف عزیزپہلے بلوچ نواب تھے جنہوں نے قبائلی نظام میں دراڑیں ڈالنے کے لئے جبری تعلیم کانظام رائج کیا۔ انہوں نے دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی علوم اور سائنس کی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا تعلیم مقصد کے حصول کے لئے یوسف عزیز مگسی علاقہ میں ایک عظیم تعلیمی منصوبہ کا آغاز کیا انہوں نے۵۱ اکتوبر ۳۳۹۱ء کوجھل مگسی میں جامعہ یوسفیہ کا سنگ بنیاد رکھا وسیع وعریض رقبے پر محیط جامعہ یوسفیہ بقول پر وفیسر محمود علی شاہ جوانہوں نے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ یوسفیہ اب بھی رقبے کے لحاظ سے بلوچستان یونیورسٹی سے بڑا ہے۔
فکری مماثلت
وطینت کا محدود تخیل نوع انسانی سے عام اور ہمہ گیر محبت کا کفیل نہیں ہوسکتا ‘ میں بین الاقوامیت کا حامی ہوں اور کائنات کے لئے اسے ضروری سمجھتا ہوں ۔ میر یوسف عزیز مگسی ‘ بلوچستان جدید یکم مارچ 1934۔