بہار کا موسم ہے، میں ایک درخت کے سائے تلے بیٹھا ہوں۔ چڑیوں کی آوازیں کانوں میں رس گول رہی ہیں۔ لیکن یہ سب عارضی ہے کیونکہ ہمارے ارد گرد بے چینی صاف دکھتی ہے، لوگ پریشان ہیں، خوشیاں ان سے روٹھ گئیں ہیں۔ معاشرے میں قیامت کا سا منظر ہے، لوگوں کا ہجوم ہے۔ مختلف ر نگ نسل و مذہب کے لوگ نظر آ رہے ہیں، اُن میں ایک عجیب نفسا نفسی ہے وہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں کوئی حد سے زیادہ امیر تو کوئی حد سے زیادہ غریب، کوئی گاڑیوں میں اے سی لگا کرخوش ہے تو کوئی کچروں کے ڈھیر میں بے سر و سامان پڑا سو رہا ہے، کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں، قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اخلاق اور انسانیت نے گویا اس معاشرے سے منہ موڑ لیا ہے۔ایک دوڑ لگی ہوئی ہے جو کسی کے راستے آئے گا بے موت مارا جائے گا۔ لوگ اپنے کاموں میں اس قدر محو ہیں کہ ان کا رابطہ دُنیا سے کٹا ہوانظر آ تا ہے۔