ساحل کو پہچانتے ہوئے

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

تیاری عروج پر تھی اور سب پرجْوش تھے۔یہ گزشتہ مہینہ کی بات ہے جب ہم بی آر سی ( بلوچستان ریزیڈینشل کالج تربت ) کی طرف سے گوادر ٹوْر پر جارہے تھے اور “حق دو تحریک” ابتدئی مرحلے میں تھا۔ گوادر کو دیکھنے کے لیے ہمارے بہت سے دوست پرجوْش تھے کیونکہ آج تک انہوں نے صرف تصویروں اورو یڈیز ( Videos) میں گوادر کو دیکھا تھا۔کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا مہرین ڈرائیو ( Road Drive Marine) کو دیکھنے کے لئے بہت بے چین تھے اور ان کا انتظار قابل دید تھا۔کیونکہ کوئٹہ والوں نے صرف وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دوسرے وزراء کی ٹیوٹر ( Account Twitter) پر لگی ہوئی تصویریں اورویڈیوز دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اور گوادر کو دبئی اور سنگاپور سمجھنے لگے تھے۔اسی دوران مجھے ایک کالم یاد آیا جو میں نے ماضی میں پڑھا تھا جس کا عنوان ” تصویر کا دوسرا رخ ” تھااور اسی طرح شاید میرے ان دوستوں کو تصویر کے دوسرے رخ کا پتہ نہیں تھا۔لیکن گوادر کے آغاز ہی سے میرے دوستوں کو گوادر کی دوسرے رخ کا پتہ چلا جب ان کو معلوم ہوا کہ حق دو تحریک کا احتجاجی دھرنا چل رہا ہے اور 4G سروس نیٹ ورک بند ہے۔