یہ میر پور خاص سندھ کا دس پندرہ سالوں کے بعد کا سفر تھا۔ میرپور خاص جانے کا پروگرام بھی اچانک بنا جب ہمارے دوست اختر حسین بلوچ کا رات کو فون آیا کہ کل میرپور خاص چلنا ہے۔ میر پور خاص اختر بلوچ کی جنم بھومی ہے لیکن وہ بھی تین چار سال کے بعد جا رہا تھا۔ میں نے چلنے کی حامی بھر لی۔ کراچی پریس کلب سے روانہ ہوئے تو ساڑھے تین چار گھنٹوں میں میر پور خاص پہنچ گئے۔ کراچی حیدرآباد موٹر وے پر سفر سبک رفتاری سے کٹا تو حیدر آباد میر پور خاص کی بہترین دو رویہ سڑک پر سفر کا مزہ دو بالا ہوگیا۔ میر پور خاص پہنچے تو ایک جہان حیرت ہمارا منتظر تھا۔
Posts By: تنویر احمد
اسٹریٹ لائبریری، لیاری کے علم دوست تمدن کی کڑی
بلوچ دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کتاب کو معاشرے کے ماتھے کا جھومر لکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس معاشرے اور گھر میں کتاب نہیں ہوتی وہاں سے تہذیب و تمدن کا گزر نہیں ہوتا۔ جب کتاب کا ذکر ہو تو یہ لامحالہ لائبریری تک پہنچتا ہے۔ پاکستان میں بے شمار لائبریریاں ہیں تاہم کراچی میں اسٹریٹ لائبریری کا ایک نیا تصورِ کچھ عرصہ پہلے متعارف کرایا گیا۔ کراچی میں میٹروپول ہوٹل کے پاس اسٹریٹ لائبریری کا قیام کچھ عرصہ قبل ہوا۔ اس سلسلے میں دوسری اسٹریٹ لائبریری کے قیام کا افتتاح کراچی کی معروف قدیم بستی لیاری میں چند روز پہلے ہوا۔
بلوچستان میں سرمایہ کاری؟
کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ”بلوچستان میں سیاحت میں سرمایہ کاری“ پر منعقدہ سیمینار میں جب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال، صوبائی وزراء اور سیکریڑی صاحبان تقریریں فرما رہے تھے تو وہ صوبے میں سرمایہ کاری کے لیے ایسا دل فریب اور حسین منظر نامہ کھینچ رہے تھے کہ گویا سرمایہ کاری کے لیے بلوچستان سے بہتر دنیا میں شاید ہی کوئی جگہ ہے۔ صوبائی وزیر اعلیٰ، ان کے مصاحبین اور ان کے ماتحت افسر شاہی کے بقول تو صوبے میں سرمایہ کاری کے لیے پرکشش مراعات موجود ہیں جن کی موجودگی میں سرمایہ کاروں کو تو دنیا کے کسی اور خطے کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہیے۔
ادھورا خواب۔۔۔۔۔۔۔۔پوری زندگی
اپنے ہم عمروں کی طرح وسیم نے بھی اپنی زندگی میں بہت سے خواب دیکھ رکھے تھے۔کچھ کر دکھانے کی جستجو اسے کسی لمحہ بھی چین نہ لینے دیتی تھی۔ وہ ہر وقت کچھ کچھ نہ کچھ سوچتا ہی رہتا تھا۔لیکن اس کے یہ سارے خواب اس کی ذات تک ہی محدود تھے۔ کسی کو کانوں کان بھی اس کی خبر نہ تھی۔ خبر ہوتی بھی تو کیسے؟ اگر وہ کسی سے یہ خواب بیان کرتا تو ہی نہ۔ لیکن اس نے کسی کو بھی اس کے بارے میں نہ بتا نے کی ٹھا ن رکھی تھی۔ اس کی سوچ بھی درست تھی کہ بجائے اس کے کہ وہ دوسروں سے اپنے خواب بیان کرے وہ چاہتا تھا کہ ان خوابو ں کی تعبیر حاصل کرنے کے بعد ان کو دوسروں کو بتائے۔ وہ دن رات محنت سے پڑھتا تھا تا کہ جلد جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچ جائے۔
زنانہ وارڈ سے مردانہ وارڈ کا سفر
’’صاحب! مجھے یہ ڈیوٹی دی گئی ہے کہ آپ کو زنانہ وارڈ سے نکال کر مردانہ وار ڈ میں منتقل کر دوں‘‘۔کیڈٹس کی ٹریننگ کے پہلے دن ان کے ٹریننگ انچارج نے کہا۔ یہ بات سن کر مجھے شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب تھوڑا سا موجودہ نظام تعلیم پر غور کیا تو پتہ چلا کہ آجکل کی سکول ایجوکیشن میں بچوں اور بچیوں کو پڑھانے کے لیے زیادہ تر خواتین اساتذہ کو رکھا جاتا ہے۔ان اساتذہ کی تعلیم وتربیت کے باعث بچوں میں فیصلہ کرنے کی قوت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔اگر دیکھا جائے تو بچیوں کے لیئے تو یہ چیز کافی حد تک قابل قبول ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت خواتین کی زیر نگرانی ہو جائے لیکن اگر لڑکوں کی تعلیم و تربیت بھی خواتین اساتذہ کی زیر نگرانی ہو تو ان کے اندر بہت سی کمزوریا ں رہ جاتی ہیں۔
ٹریفک حادثات کا ذمہ دار کون؟
احمد کی عمر کم وبیش دس سال ہوگی جب اس نے والد سے چوری چھُپے موٹر سائیکل چلانا سیکھ لیا تھا۔ بائیک چلانے کا اس کو جنون تھا۔ جونہی موقع ملتا وہ گھر سے موٹر سائیکل لیتا اور یہ جا وہ جا۔پہلے پہل تو اس کی حد محلے کا پارک تھا۔ بس بات اگلے محلے تک جا پہنچی۔ چند دن بعد ہی اس نے بائیک مین روڈ پر چلانی شروع کر دی۔وہ بائیک اتنی تیز رفتاری سے چلاتا تھا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چند لمحوں میں پہنچ جاتا تھا۔ اور بڑے فخر سے یہ کارنامہ اپنے دوستوں کو بتا تا تھا۔
شراکتی کاروبارکیسے کریں؟
پاکستان میں سب سے زیادہ ناکام ہونے والا کاروبار وہ ہے جو شراکت کی بنیاد پر کیا جائے۔میں نے بہت کم لوگوں کو اس میں کامیاب ہوتے دیکھا ہے۔اگر آپ بھی کسی کے ساتھ شراکتی کاروبار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو اس تحریر کو غور سے پڑھیں اور اس میں بیان کردہ اصولوں کو اپنی گرہ میں باندھ لیجئے۔ انشاء للہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
کامیاب ترین لوگوں کی سات عادات
آج میں سٹیفن آر کوے کی بیان کروہ کامیاب ترین لوگوں کی سات عادات بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ہم میں سے اکثر لوگ مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔ حکومت سے کسی جادو کی توقع رکھتے ہیں۔اپنی کم آمدنی اور بڑھتے ہوئے اخراجات سے پریشان رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ کسی جان لیوا بیماری کا شکار ہوکر اس دنیا سے چل بستے ہیں۔اس کے برعکس چند لوگ ایسے بھی نظر آتے ہیں جو مہنگائی کا رونا رونے کی بجائے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کا سوچتے رہتے ہیں۔
دبئی میں ملازمت کیسے حاصل کریں
میر ا دبئی میں دوسرادن تھا کہ مجھے پہلے انٹرویو کی کال آگئی۔ کمپنی کو اکاونٹس مینجر کی ضرورت تھی ۔میں اس وقت میٹرو پر سفر کررہا تھا کہ مجھے کال آئی۔ میں نے پوچھا کہ کمپنی کا آفس کس جگہ ہے ؟ تو مجھے بتا یا گیا کہ آپ کو لوکیشن میپ بھیجتے ہیں۔
خود پر ہنسیں اور کامیاب ہو جائیں
لافٹرتھراپی سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ اس کا ایک اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں جاننے کا اشتیاق ہوا۔میرے ایک مہربان دوست سرمد اقبال نے مجھے بتایا کہ لاہور میں باقاعدہ یہ تھراپی ہو رہی ہے اور لوگ پانچ ہزار روپے فیس دے کر کچھ دیر ہنستے ہیں اور اس سے ان کی بہت سی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔