حیرت کی بات یہ ہے کہ بدعنوانی نے ہماری دیانتداری بیچ دی ہے۔ ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھ کر اندھے ہوچکے ہیں جو ننگے پاؤں بھٹک رہے ہیں،اور فاقہ کشی کے عالم میں مر رہے ہیں۔ ہر روز سینکڑوں غریب سڑکوں پر گھومتے پھرتے ہیں تاکہ ایک وقت کا کھانا مل سکے۔ غربت کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق ہر چھ میں سے ایک پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہا ہے۔ ان میں سے 74 فیصد روزانہ 2 امریکی ڈالر سے کم اور 17 فیصد روزانہ 1.25 امریکی ڈالر سے کم اجرت کماتے ہیں۔
Posts By: ولی محمد زہری
بھوکا پیاسا بلوچستان اور ائیر ایمبولینس*
بلوچستان میں ملک کے دیگر علاقوں سے زائد غربت ہے اور اس کے چالیس فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکومتی عدم توجہی اور غربت کے شکار عوام جدید ترین طبی و دیگر سہولیات سے اب تک مکمل ناآشنا ہیں یا یوں کہیں کہ بلوچستان کے شہری ملک کے دیگر صوبوں کے عوام کی نسبت ترقیاتی عمل اور جدید سہولیات سے اب تک نہ تو مستفید ہو رہے ہیں اور نہ ہی ایسی سہولیات کی فراہمی کیلئے صوبائی حکومت نے سنجیدہ اقدامات کئے ہیں۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں کے مکین صرف اللہ ہی کے توکل پر زندگی کے شب و روز گزارنے میں مصروف ہیں۔
*بلوچستان میں جعلی لوکل سرٹیفیکٹس کی فروخت و بیروزگاری کا عالم*
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اگر یوں کہا جائے کہ صرف بلوچستان ہی ملک کے آدھے حصے پر مشتمل ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ 1972سے بلوچستان کو صوبے کا اسٹیٹس ملنے کے بعد بلوچستان کو وفاق میں ہر دور میں ہی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے بلکہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ وفاق میں بلوچستان کے ملازمتوں کا کوٹہ انتہائی کم ہے یا یوں کہیئے کہ یہ کوٹہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ تیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جس کے لیے وفاقی محکموں اور ملازمتوں میں صرف چھ فیصد ملازمتوں کا کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔
ریاست مدینہ اور ہمارے حکمرانوں کا قول وفعل
ریاست مدینہ مسلمانوں اور کفار دونوں کیلئے رول ماڈل تھا جہاں مسلمان عقیدتاً اور کفار یقین اور سچائی کی بنیاد پر ہی اس کو تسلیم کرتے تھے جہاں تمام طبقات مسلم اور نان مسلم کیلئے یکساں نظام و قانون تھا کسی نواب،سردار، چوہدری، ملک،ٹکری، سید کو عام عوام پر فضیلت یا فوقیت حاصل نہ تھی… Read more »
*بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کا ذمہ دار سیاسی بہروپئے ،عوام یا کوئی اور؟*
بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی صوبے میں سیاسی کردار اور سیاست بازی کا تسلسل عرصہ دراز سے جاری ہے صوبے کے 65 اراکین اسمبلی میں ہر سال معمولی تبدیلی کے علاوہ کوئی خاص تبدیلی ان نو انتخابات میں آپ کو کہیں بھی نظر نہیں آئے گی۔موجودہ اسمبلی میں بھی چند نئے چہروں کے علاوہ تمام اراکین ہمیشہ اور مسلسل منتخب ہوتے آ رہے ہیں تاہم ان کی سیاسی اکھاڑے تبدیل ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ ہی سیاسی پہلوان بنتے رہتے ہیں اور ہر دور میں ہی وزارت اور مشیر کے عہدے پر براجمان رہتے رہے ہیں۔
*وفاقی اور صوبائی بجٹ, بلوچستانی عوام کی حکمرانوں سے وابستہ توقعات*
عمران خان کی حکومت نے ریاست مدینہ طرز کی حکمرانی کا نعرہ لگا کر عوام کی دل جیتنے کی بھر پور کوشش کی لیکن وہ ملک کو عملی طور پر ریاست مدینہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ریاست مدینہ میں مساوات، برابری انصاف اور تمام طبقات کے حقوق یکساں تھے،اسٹیٹس کو کا کوئی نظام نہ تھا جہاں خاص و عام کو ایک ہی نظر یا عدالتی امور میں یکساں اہمیت حاصل تھی لیکن عمران خان کے ریاست مدینہ اور حقیقی ریاست مدینہ میں زمین آسمان کا فرق ہے حقیقی ریاست مدینہ میں چور کو سزا ہوتی تھی جہاں کتنا ہی بااثر سردار یا سیاسی اثر و رسوخ قبائلی نواب چوہدری یاخواص سے تعلق کیوں نہ ہو۔ ایک مرتبہ قریش کے کسی سردار کی بیٹی پر چوری ثابت ہوئی جس پر قاضی نے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کیا تو اس وقت تمام لوگ حضور صلی اللہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول رہنمائی فرمائیں کہ قریش کے سردار کی بیٹی پر چوری ثابت ہوئی ہے۔
ٹرانسپورٹ مافیاز اور جام کمال خان سرکار
بلوچستان ملک کا انتہائی پسماندہ صوبہ ہے جو ملک کے بیالیس فیصد رقبے پر پھیلا وسیع وعریض علاقہ ہے،وسیع رقبہ کے باعث صوبے کی آبادی بکھری ہوئی ہے، دوری اور فاصلوں کے باعث لوگ ترقی اور جدید سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔بلوچستان ملک کا پہلا صوبہ ہے جہاں گورننس اور میرٹ کے بجائے صوبائی حکومت قوانین اور اصولوں کے بجائے تمام ادارے اللہ کے توکل پر چل رہے ہیں۔ صوبے میں آج تک کوئی بھی بہتر منصوبہ بندی یا قوانین پر عمل درآمد آپ کو کہیں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہو۔ بلوچستان حکومت صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ میں بھی ستر سالوں سے سرکاری اربن ٹرانسپورٹ کا کوئی بہتر نظام آج تک وضع نہیں کر سکا ہے۔
اختر مینگل کی وفاق سے علیحدگی اور بلوچستان عوامی پارٹی کی وفاقی ناانصافیوں پر خاموشی،سیاسی حکمت یا کسی اشارے کے منتظر
18 ویں ترمیم سے قبل صوبہ اوور ڈرافٹ اور قرضوں پر ہی چلایا جاتا رہا، وزیر اعلیٰ بلوچستان صوبائی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے ہر مہینے اسلام آباد یاترا کرتا اور پھر ملازمین کے تنخواجات کی ادائیگی کی جاتی- بلوچستان میں 1972 سے لیکر آج تک کسی بھی وزیر اعلیٰ نے وفاق سے صوبے کے حقوق کیلئے دو ٹوک موقف یا صوبے کے حقوق اور ترقی کیلئے نہ تو بات کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی صوبے کے ساتھ روا رکھنے جانے والے وفاقی پالیسیوں پر کبھی کھل کر بات کی یا عوام کی سوچ کو وفاق تک پہنچانے کی ہمت کی۔
اختر مینگل کی وفاق سے علیحدگی اور بلوچستان عوامی پارٹی کی وفاقی ناانصافیوں پر خاموشی،سیاسی حکمت یا کسی اشارے کے منتظر
بلوچستان وفاقی نا انصافیوں کا ہمیشہ سے ہی شکار رہا ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی، عدم ترقی اور محرومیوں کا ذمہ دار جہاں وفاق ہے وہاں بلوچستان کے سیاستدانوں کا بھی ہمیشہ اہم کردار رہا ہے بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کو پورے صوبے کی تاریخ میں تین مرتبہ وزارت اعلیٰ کا منصب ملا جنہیں انتہائی کم وقت ملنے کے باعث اور کچھ اختیارات کی مکمل فراہمی نہ ہونے سے بلوچستان میں ترقی کا عمل جس طرح شروع ہونا چاہئے تھا وہ اسی طرح نہ ہو سکا۔ بلوچستان میں پہلی حکومت قوم پرست و نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماء سردار عطاء اللہ مینگل کوایک سال کے عرصہ تک ملا۔
تبدیلی کے اثرات اور نئے بجٹ میں بلوچستان کے ساتھ ناانصافیوں پر باپ اور بی این پی کی متوقع سیاست*
پاکستان میں عوام عمران خان کی اپوزیشن کے دور میں باتیں اور تقاریر سنتے تھے تو وہ حیران ہوتے تھے کہ عمران خان کو ملک کاوزیرا عظم ہونا چاہئے تاکہ وہ بہتر سالوں سے ملک اور عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں ظلم و جبر کا خاتمہ کرکے عوام اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکیں۔ عوام کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے جادوئی باتوں پر یقین کر چکی تھی اور عمران خان کو ہی نجات دہندہ سمجھ رہی تھی چنانچہ2018 کے انتخابات میں عمران خان کو وزرات عظمیٰ کے تخت کو تاراج کرنے کا موقع ملا تاہم اپوزیشن نے متفقہ طور پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگانے اور عمران خان کو ملک و عوام پر مسلط کرنے کا الزام لگایا۔