جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور جمہوری اقدار اپوزیشن کے بہتر کردار اور عمل کے باعث ہی مثالی ہونے کے ساتھ ترقی پسند ماحول کو بھی فروغ دینے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں یا یوں کہئے کہ اپوزیشن حکمرانوں کے لئے آئینہ ہوتے ہیں ان حکمرانوں کا ہر عمل و کردار انہیں اپوزیشن میں آئینہ کے مانند نظر آتے ہیں جمہوری دور میں اپوزیشن ہی کا کردار بلاشبہ حکومتی وژن اور سمت کے طریقہ کار کو کسی حد تک تبدیل کرکے عوامی فلاح و بہبود اور صوبے کی اجتماعی ترقی کی جانب موڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
Posts By: ولی محمد زہری
ریاست مدینہ میں نظام احتساب پیٹرول منصوعات کی قیمتیں، قلت اورحکومتی دعوے*
ملک میں ہر حکومت عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کا نعرہ لگا کر عنان اقتدار کے مسند پر فائز ہوتی ہے تو پھر وہ عوام کے مفادات کے برعکس فیصلے کرکے عوام کو مختلف ٹیکس اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر دیتی ہے۔ تہتر سالوں سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود ملک کو ایماندار قیادت نصیب نہ ہوا اور نہ ہی کسی اچھے حکمران کو حکمرانی کرنے کا موقع دیا گیا۔ ملک میں جمہوریت اور آمریت کا کھیل کھیل کر جہاں ملک میں عدم ترقی ہوئی وہاں ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی رہا، عوام نہ تو جمہوریت سے بہرہ مند ہوسکی اور نہ ہی آمریت کے ترقی کن نعرے سے مسحور ہوئی۔
*بلوچستان این ایف سی ایوارڈ, وفاق کی چشم پوشی اور ہمارے سیاست دانوں کا کردار*
بلوچستان جب سے صوبہ بنا ہے اس وقت سے لیکر آج تک کسی بھی وزیر اعلیٰ نے صوبائی حقوق، پسماندگی، عدم ترقی اور مرکزی منصوبوں میں بلوچستان کو ترقیاتی عمل میں نظر انداز کرنے کے حوالے سے دو ٹوک اور ٹھوس موقف اختیار کیا اور نہ ہی بھر پور احتجاج کیا ہو، اس طرح کی آپ کو صوبے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملے گی بلوچستان میں کم و بیش ڈیڑھ درجن سے زائد مختلف شخصیات وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود صوبائی حقوق کیلئے کاکوئی ایساکارنامہ سرانجام نہیں دیا جس کی کوئی بھی مثال دی جا سکتی ہو یا یوں کہیں کہ بلوچستان کے عوام ان کے ان عظیم کارناموں پر فخر کرتے ہوں۔
بلوچستان میں گڈ گورننس اور میرٹ کے نفاذ سے ہی محرومیوں کا خاتمہ اور ترقی کا سفر ممکن ہو سکتا ہے*
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی 1972 میں ایک صدارتی حکم نامے کے تحت وجود میں آئی۔اسمبلی کا پہلا اور باقاعدہ اجلاس 2 مئی 1972 کو منعقد ہوا جس میں 21 ارکان (ایک خاتون اور 20 مرد حضرات) نے شرکت کی۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے وجود میں آنے کے بعد سے لیکر اب تک کے اس سفر میں مجموعی طور پر 8 عام انتخابات دیکھے ہیں۔اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد بتدریج بڑھ کر 65 ہو چکی ہے۔ اگرچہ ارکان کی تبدیلی کی وجہ سے یہ تعداد گھٹتی اور بڑھتی رہی ہے۔ 1972میں ارکان کی کل تعداد21اور 1977 ء میں 45 تھی جو 1999 میں گھٹ کر 43 ہو گئی۔
بلوچستان کے ہسپتال، شفاخانے یا مقتل گاہ*
بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں امن و امان اور تعلیم کے بعد صحت عامہ کیلئے خطیر رقم مختص کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں 32 اضلاع ہیں جہاں چھوٹے بڑے ہسپتال قائم ہیں اور پورے صوبے میں دو درجن سے زائد ڈی ایچ کیو ہسپتال ہیں جن کے بلڈنگ قائم ہیں ان میں یاتو ڈاکٹرز کی کمی ہے یا پھر ان میں ادویات نایاب ہیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹروں کی کمی اور علاج معالجہ ی بہترین سہولیات نہ ہونے کے باعث پورے ملک کی نسبت یہاں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں موذی اورخطرناک بیماریوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلوچستان میں جتنے بھی سرکاری ہسپتال قائم کیئے گئے ہیں۔
بلوچستان کے ہسپتال، شفاخانے یا مقتل گاہ*
بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں امن و امان اور تعلیم کے بعد صحت عامہ کیلئے خطیر رقم مختص کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں 32 اضلاع ہیں جہاں چھوٹے بڑے ہسپتال قائم ہیں اور پورے صوبے میں دو درجن سے زائد ڈی ایچ کیو ہسپتال ہیں جن کے بلڈنگ قائم ہیں ان میں یاتو ڈاکٹرز کی کمی ہے یا پھر ان میں ادویات نایاب ہیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹروں کی کمی اور علاج معالجہ ی بہترین سہولیات نہ ہونے کے باعث پورے ملک کی نسبت یہاں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں موذی اورخطرناک بیماریوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلوچستان میں جتنے بھی سرکاری ہسپتال قائم کیئے گئے ہیں۔
کرونا دنیا کیلئے عذاب اور زحمت جبکہ بلوچستان کیلئے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوا*
کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق لاکھوں افراد کورونا وائرس سے ہلاک اور متاثر ہوئے ہیں کورونا وائرس نے ترقی یافتہ دنیا کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے کورونا وائرس سب سے زیادہ یورپ اور امریکہ کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے اور اس خطرناک وائرس کی بدولت عالمی دنیا اور اسٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں۔ عالمی معیشت بھی ہچکولے کھا رہی ہے وہاں ترقی پذیر ممالک بھی شدید متاثر ہوئے ہیں اور مزید ہوتے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی لاک ڈاؤن فارمولے نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کورونا وائرس سے لاک ڈاؤن کے باعث جہاں کورونا کو کنٹرول کرنے کا فارمولا سمجھا جا رہا تھا اسی لاک ڈاؤن سے غربت کی شرح میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
بلوچستان میں میرٹ اور گڈ گورننس کا جنازہ اور ایمانداری کا صلہ*
بلوچستان میں بہت ہی کم مثالیں ملیں گی کہ ایماندار آفیسران صوبے کے ماتھے کے جھومر یا فخربنے ہوں۔ آپ کو صوبے میں کسی بھی لائق فائق ایماندار آفیسر صوبے کی کسی اہم پوسٹ پر نہیں ملے گا بلکہ یوں کہئے کہ ایمانداری کو اب انعام اور ایوارڈ نہیں بلکہ سزا ملتی جا رہی ہے جو ایمانداری کریگا اسے منسٹرز تک تھپڑیں مارتے ہوں گے۔ جہاں منسٹرز سیکرٹریز پر ہاتھ اٹھاتے ہوں وہاں یقینا میرٹ اور گڈ گورننس کا جنازہ ہی نکلے گا-گزشتہ ماہ سیکرٹری ہیلتھ کے ساتھ اس طرح کی عزت افزائی کا واقعہ بھی رونما ہوا تھا۔
*کورونا وائرس,محکمہ خوراک کی ناقص منصوبہ بندی اور گندم خریداری ہدف*
نصیرآباد ڈویژن بلوچستان کا زرعی اور زرخیز علاقہ ہے اور یہاں گندم کی بمپر فصل اور وافر مقدار میں پیداوار ہوتی ہے۔ صوبائی حکومت محکمہ خوراک کے ذریعے ہر سال گندم خریداری کرتی ہے اور اس کیلئے ہمیشہ بہت دیر کی جاتی ہے لیکن سابقہ ادوار اور موجودہ کورونا وائرس جیسے وباء کی پریشانی کے باعث گندم کی خریداری بیوپاریوں نے بلوچستان حکومت سے قبل شروع کی۔ جب گندم کی ساٹھ فیصد سے زائد کوئٹہ کے بیوپاری خریداری کر چکے تھے تو پھر حکومت کو خریداری مراکز قائم کرنے کا خیال آیا۔ بلوچستان حکومت نے آج تک کسی بھی فیصلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی بہتر پلاننگ کی جاتی ہے، اب گندم خریداری مراکز گندم کی فصل ختم ہونے کے بعد کیا خریداری حدف پورا کر سکیں گے یقینا جہاں ٹھوس منصوبہ بندی نہ کرکے گندم کی خریداری کا نہ تو ہدف پورا کیاجا سکا ہے۔
بلوچستان کے ترقیاتی منصوبے اور صوبے میں نیب کا کردار*
بلوچستان بھر میں ترقیاتی کاموں کا معیار روز بروزگرتا جارہا ہے جس کے باعث تمام سرکاری منصوبے اس اعلیٰ معیار کے مطابق نہیں بنتے جو بننا چاہئے تھا۔ آپ اس کی مثال پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ جیسے عظیم منصوبے کے حشر سے اندازہ لگا سکتے ہیں جہاں اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود کینال بحالی کا نام تک نہیں لے رہا۔ ایسے کئی منصوبے بلوچستان کے میڈیا کی زینت بنتے ہیں جبکہ اس حوالے سے سب سے زیادہ صوبے میں میرٹ کے تحت اوپن ٹینڈر نہ کرانے اور اپنے من پسند ٹھیکیدار سے غیر معیاری اور ناقص منصوبے مکمل کرانا جہاں معیار اور کوالٹی نام تک کا ہو، وہاں کوئی بھی منصوبے چھ ماہ تک چل نہیں سکتے۔