
ایک حقیقت یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ پاپولسٹ تحریکوں کے اندر عوام کی سب سے بڑی بھیڑ اْس آبادی سے ہوتی ہے جو اس سے پہلے کسی سیاسی تنظیم یا جماعت کا حصہ نہیں ہوتے۔ سو، انہیں کوئی غرض نہیں ہوتا کہ انہیں لیڈ کرنے والا کون ہے یا کہاں سے آیا ہے بلکہ انکے نزدیک انکے غم و غصے اور جذبات کی درست ترجمانی اہم ہوتی ہے۔یہاں اگر قیادت باصلاحیت ہو اور انقلابی وژن رکھتی ہو تو ایسی تحریک جلد ہی بڑی پارٹی کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ ایسی پارٹیاں چوک و چوراہوں پر بن جاتی ہیں اور ان میں مزاحمت کا بڑا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ اسی لئے بھی روایتی لیڈرشپ خوفزدہ ہوتی ہے کہ کہیں انکی روایتی پارٹیوں کے بالمقابل کوئی نئی پارٹی تشکیل نہ پائے۔جو سیاسی کارکنان دیگر پارٹیوں کے اندر موجود ہیں وہ اکثر اس غلطی فہمی کے اندر مبتلا ہوتے ہیں کہ چونکہ وہ اور انکے جاننے والے دوسرے کارکنان اس پاپولسٹ تحریک کا حصہ نہیں ہیں، اس لئے اسے سماج کی مسترد شدہ تحریک مان لینا چاہیے۔ یہ صریحاً اجارہ پرست سیاسی کارکنوں کی بہت بڑی غلط فہمی و نابودی ہے۔اسی بناء پر حق دو تحریک کو یکسر اِگنور کرکہ اسے عوامی حمایت سے بے بہرہ قرار دے دینا بھی خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ حق دو تحریک کو عوام کے اندر پذیرائی حاصل ہے اور وہ ایک ایسے بڑے حلقے کو سڑکوں پر لے آئی ہے جو اس سے پہلے کبھی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ نہ تھے۔ البتہ تحریک کی قیادت کا امتحان اب آن پہنچا ہے کہ وہ اسکے مستقبل کا کیا فیصلہ کریں گے اور کیسے اسے عوام کی وسیع تر حلقوں تک پہنچانے کی حکمت عملی ترتیب دینگے۔ تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کی ہچکولے کھاتی کشتی اس تحریک کو کیسے نیّا پار کرائے گی اب تک اسکے امکانات واضح و روشن نہیں نظر آ رہے ہیں۔