حمل ظفر نے کینسر کو شکست دے دیا

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

بلوچستان میں غریبی، بے روزگاری، بے وسی ، بے حسی اور پد منتگی کی بیماریاں کیا کم تھے کہ کینسر بھی بلوچ کے حصے میں آیا۔ اب تک بلوچستان میں کسی کے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کینسر آخر کس چیز کا بدلہ بلوچ سے لے رہا ہے کیوں کہ بلوچ نے آج تک کیسنر کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے ہاں اگر غصے میں بول دیا ہوگا کہ “کینسر ترا کینسر بجنت” کینسر آپکو کینسر مارے تو یہ کونسی غلط بات ہوئی کیوں کہ اگر کینسر موت بن کر آئے گا تو بدلے میں کوئی مظلوم بد دعا دینے کے سوا اور کر بھی کیا سکے گا۔ بلوچستان میں ادیب شاعر یا گشندہ ہونا یا زبان کے لیے خدمت کرنا سب سے بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے، جن کو زمینی خدا مارتا تو ہے۔

آئیں عطا شاد سے وفا کریں

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

دو دن پہلے کی بات ہے۔ خاران وشتام ہوٹل کے باہر ہم چند ہم فکر دوست ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ میں مصروف عمل تھے کہ خاران کے ادبی ادارے کے ایک اہم عہدیدار ہمارے قریب آ کر مجھے اشارے سے اپنے پاس بلا کر کہنے لگا کہ دو دن بعد ہمارے کارگس میں واجہ عطا شاد کا چوبیسواں سالروچ ادبی ادارے کی طرف سے منایا جا رہا ہے ہو سکے تو آپ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ آجانا۔ میں نے پوچھا کہ صرف آنا ہے یا واجہ عطا شاد کے بارے میں کچھ کہنے کا موقع بھی ملے گا۔۔۔۔۔۔۔ تو ادبی دوست نے تھوڑا مسکرا کے جواب دیا کہ ہمارا مقصد ایک رسماً ادا کر کے سالروچ منانا ہے۔

خدارا، خود کو مہاجر نہ بناؤ

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

اس وقت بلوچستان کے گھمبیر مسائل میں ایک اہم مسئلہ جعلی لوکل اور شناختی کارڈ کا ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بہت سے شہروں میں ایسے بہت سے جعلی لوکل برآمد ہوئے جنہوں نے بلوچستان سے اپنے جعلی لوکل اور شناختی کارڈ کے بل بوتے نہ صرف بلوچستان میں اہم سرکاری عہدوں پر براجمان ہوئے بلکہ بلوچستان کے وفاقی کوٹہ کو بھی ہم سے چھیننے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے باقی اضلاع کا پتا نہیں مگر خاران جس سے میرا تعلق ہے یہاں جعلی لوکل یا شناختی کارڈ بننے میں سب سے زیادہ ہاتھ ہمارا اپنا ہی ہوتا ہے۔

ماما صدیق بلوچ اورمحمد بیگ بیگل

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ہمیشہ سے سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں کہ ادب کا صحافت سے گہرا تعلق رہا ہے، مگر پریکٹیکل طور پر کبھی نہیں دیکھا ۔ یہ 2016 کی بات ہے کہ بلوچی زبان کے نامورطنز و مزاح نگار مرحوم محمد بیگ بیگل اور بلوچی زبان کے شہنشاہ غزل مرحوم ظفر علی ظفر کو بلوچی اکیڈمی کوئٹہ نے ایک سیمینار کے سلسلے میں کوئٹہ مدعو کیا تھا۔ سیمینار محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کے نام پر تھا۔ وہ وقت بھی بڑا قیمتی تھا، ایک تو ہم بے روزگار اوپر سے ادب سے لگاؤ۔دن رات بلوچی اکیڈمی کوئٹہ میں اس وقت کے چیئرمین بلوچی اکیڈمی کوئٹہ عبدالواحد بندیگ کے ساتھ گپ شپ کرتے دن گزر جایا کرتے تھے۔ جب محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کا آنا ہوا ،تو زیادہ تر وقت محمد بیگ بیگل اور ظفر علی ظفر کے ساتھ ان کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں بحث و مباحثہ میں گزر جایا کرتا تھا۔