کردار ہمیشہ سے ہی شخصیت کا آہینہ دار رہا ہے،بہترین کردار ہی بہترین شخصیات کو جنم دیتا ہے، موجودہ حالات میں کورونا وائرس کی اس عالمگیر وباء نے مسیحاؤں کی شکل میں ایسی شخصیات متعارف کرادی ہیں جو اپنے کردار سے ثابت کررہی ہیں کہ انہیں اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں سے زیادہ وہ زندگیاں عزیز ہیں جن کو بچانے کا عہد وہ کرچکے ہیں جن زندگیوں کو بچانے اور جن درد مندوں کا آسرا بننے کا وہ حلف لے چکے ہیں،کورونا وائرس کی اس عالمگیر وباء سے جہاں اس وقت دنیا بھر میں ہونے والی اموات 1 لاکھ 61 ہزار سے تجاوز کرچکی ہیں وہاں اس سے نبردآزما ڈاکٹرز،نرسز اور پیرامیڈیکس بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن ساری زندگی لاشعوری طورپر بائیں بازو کی ترقی پسند سوچ کے ساتھ ہم سے جدا ہوگئے۔ طالبعلمی کے زمانے سے امیر جماعت اسلامی تک کا سفر انہوں نے مزاحمتی سیاست کی بنیاد پر کیا۔ اس مزاحمتی سیاست نے جماعت اسلامی کو مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے طبقے سے نکال کر عام لوگوں تک لانے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے پارٹی کے اندر انٹی ملٹری اسٹیبلشمنٹ بیداری کو فروغ دیا اوریہ سوچ کافی حد تک پروان بھی چڑھی۔
آج کل ہر طرف آن لائن کلاسز مباحث کا موضوع ہے- میں چونکہ خود ایک سرکاری یونیورسٹی میں شعبہ کمپیوٹر میں استاد ہوں اور درس و تدریس کے عمل سے وابستہ ہوں، تو یہ بحث میرے لئے عام لوگوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ آن لائن کلاسز کے بارے میں مختلف طلباء کی مختلف آراء ہیں۔ کچھ طلباء کے بقول یہ دیہی علاقے کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے جو انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے آن لائن کلاسوں میں اپنی حاضری لگانے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح مختلف شعبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس حوالے سے مختلف آراء ہیں۔
26 جون منشیات کے خاتمہ کا دن ہے اور اس دن کو دنیا بھر میں منشیات کے عالمی دن کے طور پر مناتے ہیں ریلیاں نکالتے ہیں سیمینارز منعقد کرتے ہیں اور لوگوں کوآگاہی دیتے ہیں مگر اس لعنت کے عادی افرادمیں کمی نہیں آتا، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اس کو فیشن اور شوق سمجھ کر اپناتے ہیں لیکن بعد میں وہ ایسی عادت یا مجبوری بن جاتی ہے جس کو کوشش کے باوجود چھوڑنا ممکن نہیں رہتا۔ منشیات ان میں ایک ہے جو نہ صرف انسان اور اس کی زندگی بلکہ گھر، معاشرے اور قوم کو تباہ و برباد کردیتی ہے اسی وجہ سے منشیات کو لعنت کہا جاتا ہے۔
عمران خان کی حکومت نے ریاست مدینہ طرز کی حکمرانی کا نعرہ لگا کر عوام کی دل جیتنے کی بھر پور کوشش کی لیکن وہ ملک کو عملی طور پر ریاست مدینہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ریاست مدینہ میں مساوات، برابری انصاف اور تمام طبقات کے حقوق یکساں تھے،اسٹیٹس کو کا کوئی نظام نہ تھا جہاں خاص و عام کو ایک ہی نظر یا عدالتی امور میں یکساں اہمیت حاصل تھی لیکن عمران خان کے ریاست مدینہ اور حقیقی ریاست مدینہ میں زمین آسمان کا فرق ہے حقیقی ریاست مدینہ میں چور کو سزا ہوتی تھی جہاں کتنا ہی بااثر سردار یا سیاسی اثر و رسوخ قبائلی نواب چوہدری یاخواص سے تعلق کیوں نہ ہو۔ ایک مرتبہ قریش کے کسی سردار کی بیٹی پر چوری ثابت ہوئی جس پر قاضی نے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کیا تو اس وقت تمام لوگ حضور صلی اللہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول رہنمائی فرمائیں کہ قریش کے سردار کی بیٹی پر چوری ثابت ہوئی ہے۔
پاکستان کی معیشت کورونا وائرس کی وبا سے پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار تھی۔ جاری کھاتوں کے خسارے میں 75فی صد کمی آگئی اور مجموعی طور پر مالیاتی ’توازن‘ مثبت ہوگیا، جو جی ڈی پی کا اعشاریہ تین فی صد بنتا ہے۔ ملک کی کریڈٹ ریٹنگ منفی سے مستحکم ہوگئی۔ ”ایز آف ڈوئنگ بزنس کی درجہ بندی میں پاکستان 136سے 108 ویں نمبر پر آگیا۔ کئی تجزیہ کاروں نے معاشی استحکام کے لیے حکومتی اقدامات کا اعتراف کیا اور انہیں بہتری کی راہ پر بڑھتے قدم قرار دیا۔ بد قسمتی سے وبا نے ان کاوشوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ دنیا بھر کی معاشی صورت حال کی طرح وبا سے قبل پاکستان کی معیشت میں آنے والی بہتری گزشتہ مالی سے کی چوتھی سہ ماہی میں وبا کے باعث ابتری میں تبدیل ہوگئی۔ بنیادی اشیائے ضروریہ کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اختیار کی گئی ہمہ جہت حکمت عملی اور اس کے لیے کیے گئے اقدامات سے وبا کا پھیلاؤ سست ہوا، اس کے ساتھ معاشرے کے پس ماندہ طبقات کو نقدی کی فراہمی اور بحالی کے دیگر اقدمات بھی کیے گئے۔
آج قلم لئے میں اپنے ذہن کی اْلجھی سوچوں کو شکل تو دے رہی ہوں مگر کیسے کسی کے درد کو زبان دوں۔ کئی سال پہلے آزادی کی جدوجہد کی گئی اور بے انتہا قربانیوں کے بعد ہم آزاد ہوئے،اپنا وطن پایا اور ساری دنیا میں مسلمانوں کی طاقت کو منوایا مگر افسوس کہ ایک دلکش اور خوبصورت حصہ ایسا رہ گیا جو آزاد نہ ہوسکا۔ وہ حصہ جسے اللہ نے بے انتہا خوبصورتی سے نوازا ہے۔ مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ جنت سی پرْکشش جگہ بھی کسی دن آگ کی لپیٹ میں آکے جھلس جائے گا۔ بچپن سے اب تک سنتے آرہے ہیں کے کشمیر آزاد ہوگا ایک دن مگر آج تک کوئی عملی نمونہ نظر نہیں آیا۔
بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت نے تیسرا بجٹ پیش کر دیا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی دباؤ کے باوجود ترقیاتی اسکیمات میں فنڈز کی منصفانہ تقسیم،صحت،تعلیم اور امن و امان کے شعبے کو ترجیحات میں شامل کر کے حکومت نے ثابت کر دیا ہے کہ عوام کی ترجمان حکومت کا طرز سیاست ماضی کے اقتدار سے مکمل طورپر مختلف ہے مالی سال2020-21میں جہاں پوری دنیا کورونا جیسے مہلک وبائی مرض سے متاثر تھی وہیں بلوچستان حکومت محدود وسائل میں رہتے ہوئے اس عالمی وائرس سے جنگ لڑ رہی ہے اور اس جنگ میں جہاں ناقابل تلافی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا وہیں معیشت کو بھی کمر توڑ دھچکا لگااور طبی آلات،ادویات اور دیگر سامان کی خریداری کابراہ راست بوجھ صوبے کی معیشت پر پڑا مگر اس کے باوجود وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان عالیانی اور انکی کابینہ نے465ارب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کردیا۔
26جون، آج ہی کے دن کو ہر سال انسداد منشیات کے عالمی دن کے طور منایا جاتا ہے جس کا مقصد منشیات کے نقصانات کے حوالے سے شعور و آگاہی اور ان کے استعمال، مضر اثرات کے بارے میں مختلف سیمینار و تقریب منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ قوم کو یہ علم ہو کہ منشیات ایک زہر قاتل ہے یہ آہستہ آہستہ انسانی جسم کو کھوکھلا کرکے انھیں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیتا ہے یعنی سلو پوائزن ہے۔منشیات کے عادی افراد دنیا و مافیہا سے بے خبر رہتے ہیں نہ انہیں علم کا شوق ہوتا ہے اور نہ ہی گھر بار، بال بچوں کی فکر لاحق ہوتی ہے وہ اپنی دنیا میں مست ہو کر اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں تباہ و برباد کرتے چلے جاتے ہیں۔
سماجی کارکن سازین بلوچ کہتی ہیں کہ لسبیلہ میں منشیات کا مسئلہ بہت پرانا ہے پہلے شاید یہ مسئلہ ہر ایک کا نہیں تھا لیکن اب یہ مرض ہرگلی اور ہر محلے و گاؤں کی سطح تک پہنچ چکاہے،جس کی وجہ سے نوجوان اور خواتین بھی منشیات کی علت میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے کاروبار میں شریک ہیں جو معاشرے میں اور بھی خطرناک عمل کی نشاندہی کررہاہے،سازین بلوچ مزید کہتی ہیں کہ منشیات کے تدارک کے لیے سول سوسائٹی اور حکومتی اداروں کو ایک پیچ پر ہونا چاہیے اور یہ تاثر ختم ہوناچاہیے کہ ہمارے ادارے خود منشیات کے فروغ میں شامل ہیں یا پھر وہ ڈرگ مافیا کے ساتھ رعایت برتتے ہیں۔