یہاں تک کہ سرکار دوعالم نے اس بچے کو اپنے ساتھ ممبر پر بٹھایا اور فرمایا جو شخص یتیم کی کفالت کرے گااور محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پیرے گا،اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا۔ہمیں بھی نبی کریم کی پیروی کرتے ہوئے عید کے موقع پر اپنے ارد گرد بسنے والے غریب،یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہئے تاکہ ان کی بھی عید ہوجائے اور ہمیں کل روزقیامت آپکے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔عید سب کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے لیکن پاکستان کے غریب طبقے کے لئے ”خودکشیوں ”کا پیغام ہوتا ہے۔مہنگائی نے غریبوں کے علاوہ سفید پوش یعنی مڈل کلاس طبقے کو بھی متاثر کردیا ہے اب عید کی شاپنگ متوسط طبقے کی دسترس سے بھی باہر ہوگئی ہے تو وہاں نچلے طبقے کے غریب کی حالت کیسی ہوگی۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہزاروں تنظیمیں غربت کے خاتمے کے نام پر عیاشیوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور غریب کے نحیف جسم پر پاؤں رکھ کر اپنی معاشی زندگی کے محل تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ آج سے کئی سال قبل کی رپوٹ ہے حکومت پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پہلے ملک میں آبادی کے لحاظ سے ہر 10 میں سے ایک شخص غریب تھا اور اب یہ تعداد بڑھ کر 3 ہو چکی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی اور مالیات کی جانب سے بین الاقوامی ترقیاتی اداروں کی موجودگی میں تیار کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد میں ایک دم حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بلوچستان ایک ایساخطہ ہے جس کو قدرت نے اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس دھرتی کو خالق کائنات نے سونے چاندی سے بھردیا ہے۔ ان کی بلند پہاڑوں سے لیکر ساحل تک،صحراؤں سے لیکر وادیوں تک سب میں قدرت نے اپنے خزانے بھردئیے ہیں۔بلوچستان کے پہاڑوں، وادیوں اور صحراؤں سے نکلنے والاہر ذرہ، ہر پتھر، ہر پھل اپنی ایک الگ قیمت رکھتا ہے۔ سندک، کرومائیٹ، ریکوڈیک، سنگ مرمر اور دیگر قیمتی ماربل پتھریں بھی پورے پاکستان میں اس ذرخیز خطہ کی مرہون منت ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس دھرتی کے اپنے باسی خود فاقہ کشی پر مجبور ہیں بلوچستان کے لوگ اپنے ساحل وسائل کے مالک بھی نہیں ہیں۔ پورے ملک کو تمام قدرتی وسائل ایکسپورٹ کرنے والے صوبے کے لوگ خود پانی اور ایک سڑک کیلیے ترس رہے ہیں۔
ویسے تو بھارت 1947ء میں تقسیم برصغیر کے فوراًبعد سے پاکستان کے خلاف صوتی محاذ پر سرگرم رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ اپنے الیکٹرانک میڈیا نیٹ ورک کا وسیع جال بچھایا ہے لیکن وزیراعظم نریندرا مودی کی پہلی میعاد کے اواخر میں بھارت نے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ تیز کردیا تھا جسے انتخابات جیتنے کا ہتھکنڈہ سمجھ کر پاکستان میں نظر انداز کر دیاگیا۔ تاہم دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد وزیراعظم مودی نے اپنے بدنام زمانہ”ہندتوا“ ایجنڈے کو پروان چڑھاتے ہوئے جہاں بالاکوٹ میں جارحیت کا ارتکاب کیا وہیں انہوں نے سفارتی و نشریاتی محاذوں کو پاکستان کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال کرنا شروع کردیا۔
پرانے زمانے میں انسان تعلیم کے حصول کے لیے بہت محنت و مشقت کرتے تھے اس زمانے میں حصول تعلیم میں بہت اسباب مانع تھے۔ جیسے تعلیمی اداروں کی قلت، اساتذہ کی عدم موجودگی، زیادہ غربت اور ذرائع سفر کی عدم دستیابی شامل تھی۔ان ساری رکاوٹوں کے باوجود قدیم زمانے میں متقدمین علماء اور سائنسدانوں نے امت کے لیے بہت کارنامے سرانجام دیئے۔جو آج ہم ان کو بطور فخر یاد کرتے ہیں۔موجودہ ترقی ان قدیم علماء،فلاسفر اور سائنسدانوں کی مرہون منت ہے جو ہمیں ان سے وراثت میں ملی ہے۔ انہوں نے شب و روز محنت کرکے امت کے لیے احادیث، فقہ، سیرت، تفسیر، تاریخ، سائنس اور فلسفہ مدون کیے۔ ان میں چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
پاکستان میں رہڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی دریا دریائے سندھ پر پاکستان کا ایک اور بڑا ڈیم بنانے کا خواب سچ ہونے جا رہا ہے۔ 13 مئی 2020 کو پاکستانی حکومت نے 442 بلین کے دیامر بھاشا ڈیم کے معاہدے پر چین کے ساتھ دستخط کردئیے۔یہ کام کنٹریکٹ پر چائنہ پاور کمپنی اور پاکستان آرمی کے زیراہتمام ڈبلیواو کو سونپا گیا ہے۔ضلع کوہستان جو صوبہ خیبر پختونخوا اور ضلع دیامر جو گلگت بلتستان میں واقع ہے کے درمیان بہنے والے دریا دریائے سندھ پر یہ ڈیم 272 میٹر اونچا بنے گا جو دنیا کا چھٹا بڑا ڈیم ہوگا۔ ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی کے ساتھ ساتھ لاکھوں ایکڑ زمین بھی زیرکاشت آئے گی۔
فلسطین عثمانی سلطنت کا حصہ تھا جو 1922 میں لیگ آف نیشنز کی طرف سے انگلستان کی سرپرستی میں دیا گیا۔ اس علاقے کے کنٹرول کیلئے انگلستان کے مینڈیٹ پر مبنی طریق کار کے تحت 1917 میں “بالفورڈ ڈیکلریشن” جاری کیا گیا جسکے ذریعہ فلسطینی سرزمین کو تبدیل کرکے اسے یہودیوں کی اصلی اور قومی سرزمین قرار دے دیا گیا۔ مذکورہ مینڈیٹ کے طریق کار سے 1922 سے 1947 کے دوران یہاں پوری دنیا اور خصوصاً مشرقی یورپ سے بڑے پیمانہ پر یہودیوں کی ہجرت عمل میں آئی۔ جبکہ تیس کی دھائی میں نازیوں کے مظالم نے اس ہجرت میں نمایاں اضاف کیا۔ وسیع پیمانے پر ہجرت، فلسطینیوں کی املاک اور اموال کی لوٹ مار، ان کے انفرادی حقوق کی پامالی، “قوم کے بغیر زمین اور زمین کے بغیر قوم کیلئے جیسے غلط اور غیر منطقی نعروں اور امریکا کی طرف سے غاصبوں کی ٹھوس حمایت سے آخر کار صیہونی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔
چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کورونا وائرس نے پوری دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس وقت دنیا بھر میں کورونا کے وبائی مرض سے متاثرین کی تعداد 46 لاکھ سے اوپر چلی گئی ہے اور اس مرض سے تین لاکھ 06 ہزار اموات ہو چکے ہیں جبکہ اس مرض سے بڑی تعداد میں لوگ صحتیاب بھی ہو چکے ہیں۔کورونا کے وبائی مرض سے ہمارے ملک میں کل تک38307 شہری متاثر ہوئے ہیں جس میں 822 شہری موت کا شکار ہو گئے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ اس مرض سے صحتیاب بھی ہو چکے ہیں۔ کورونا کے اس وبائی مرض کیلئے دنیا بھر میں جو اقدامات اٹھائے گئے جس شہر یا علاقے میں یہ مرض پایا گیا وہاں کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کرکے شہریوں کو گھروں تک محدود کیا اور شہریوں کو کھانے، پینے کی چیزیں بہم پہنچائی گئیں۔
چند دن پہلے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک ہسپتال میں دل سوز اور جاں فرسا واقعہ پیش آیا۔سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا اور کامیاب ڈیلیوریز کے بعد بہت سے بچے اس دنیا میں آنکھ کھول رہے تھے۔اچانک نا معلوم حملہ آوروں نے ہسپتال پر فائرنگ شروع کر دی، نومولود بچے،بہت سی مائیں اور ہسپتال کی نرسیں اس حملے میں ہلاک ہوئیں۔
سمیع اللہ شہید کی شہادت کے بعد محترمہ عائشہ زہری صاحبہ نے اس کے مشن کو سرکاری طور پر جاری رکھا، دونوں کی جدوجہد منشیات کاخاتمہ ہے کیونکہ پوری دنیا منشیات کے خوفناک زہر کے حصار میں ہے۔ نئی نسل اپنے تابناک مستقبل سے لا پرواہ ہوکر تیزی کے ساتھ اس زہر کو مٹھائی سمجھ رہی ہے اور کھائے جارہی ہے۔سگریٹ اور شراب پیتے ہوئے لوگوں کو اور دوستوں کو دیکھ کر دل مچل جاتا ہے،جو نوجوان نسل کو تباہ کر رہا ہے ان کی زندگی کو اندھیرے میں ڈال کر ان کی جوانی کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر رہا ہے۔