پاکستان میں رہڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی دریا دریائے سندھ پر پاکستان کا ایک اور بڑا ڈیم بنانے کا خواب سچ ہونے جا رہا ہے۔ 13 مئی 2020 کو پاکستانی حکومت نے 442 بلین کے دیامر بھاشا ڈیم کے معاہدے پر چین کے ساتھ دستخط کردئیے۔یہ کام کنٹریکٹ پر چائنہ پاور کمپنی اور پاکستان آرمی کے زیراہتمام ڈبلیواو کو سونپا گیا ہے۔ضلع کوہستان جو صوبہ خیبر پختونخوا اور ضلع دیامر جو گلگت بلتستان میں واقع ہے کے درمیان بہنے والے دریا دریائے سندھ پر یہ ڈیم 272 میٹر اونچا بنے گا جو دنیا کا چھٹا بڑا ڈیم ہوگا۔ ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی کے ساتھ ساتھ لاکھوں ایکڑ زمین بھی زیرکاشت آئے گی۔
فلسطین عثمانی سلطنت کا حصہ تھا جو 1922 میں لیگ آف نیشنز کی طرف سے انگلستان کی سرپرستی میں دیا گیا۔ اس علاقے کے کنٹرول کیلئے انگلستان کے مینڈیٹ پر مبنی طریق کار کے تحت 1917 میں “بالفورڈ ڈیکلریشن” جاری کیا گیا جسکے ذریعہ فلسطینی سرزمین کو تبدیل کرکے اسے یہودیوں کی اصلی اور قومی سرزمین قرار دے دیا گیا۔ مذکورہ مینڈیٹ کے طریق کار سے 1922 سے 1947 کے دوران یہاں پوری دنیا اور خصوصاً مشرقی یورپ سے بڑے پیمانہ پر یہودیوں کی ہجرت عمل میں آئی۔ جبکہ تیس کی دھائی میں نازیوں کے مظالم نے اس ہجرت میں نمایاں اضاف کیا۔ وسیع پیمانے پر ہجرت، فلسطینیوں کی املاک اور اموال کی لوٹ مار، ان کے انفرادی حقوق کی پامالی، “قوم کے بغیر زمین اور زمین کے بغیر قوم کیلئے جیسے غلط اور غیر منطقی نعروں اور امریکا کی طرف سے غاصبوں کی ٹھوس حمایت سے آخر کار صیہونی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔
چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کورونا وائرس نے پوری دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس وقت دنیا بھر میں کورونا کے وبائی مرض سے متاثرین کی تعداد 46 لاکھ سے اوپر چلی گئی ہے اور اس مرض سے تین لاکھ 06 ہزار اموات ہو چکے ہیں جبکہ اس مرض سے بڑی تعداد میں لوگ صحتیاب بھی ہو چکے ہیں۔کورونا کے وبائی مرض سے ہمارے ملک میں کل تک38307 شہری متاثر ہوئے ہیں جس میں 822 شہری موت کا شکار ہو گئے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ اس مرض سے صحتیاب بھی ہو چکے ہیں۔ کورونا کے اس وبائی مرض کیلئے دنیا بھر میں جو اقدامات اٹھائے گئے جس شہر یا علاقے میں یہ مرض پایا گیا وہاں کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کرکے شہریوں کو گھروں تک محدود کیا اور شہریوں کو کھانے، پینے کی چیزیں بہم پہنچائی گئیں۔
چند دن پہلے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک ہسپتال میں دل سوز اور جاں فرسا واقعہ پیش آیا۔سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا اور کامیاب ڈیلیوریز کے بعد بہت سے بچے اس دنیا میں آنکھ کھول رہے تھے۔اچانک نا معلوم حملہ آوروں نے ہسپتال پر فائرنگ شروع کر دی، نومولود بچے،بہت سی مائیں اور ہسپتال کی نرسیں اس حملے میں ہلاک ہوئیں۔
سمیع اللہ شہید کی شہادت کے بعد محترمہ عائشہ زہری صاحبہ نے اس کے مشن کو سرکاری طور پر جاری رکھا، دونوں کی جدوجہد منشیات کاخاتمہ ہے کیونکہ پوری دنیا منشیات کے خوفناک زہر کے حصار میں ہے۔ نئی نسل اپنے تابناک مستقبل سے لا پرواہ ہوکر تیزی کے ساتھ اس زہر کو مٹھائی سمجھ رہی ہے اور کھائے جارہی ہے۔سگریٹ اور شراب پیتے ہوئے لوگوں کو اور دوستوں کو دیکھ کر دل مچل جاتا ہے،جو نوجوان نسل کو تباہ کر رہا ہے ان کی زندگی کو اندھیرے میں ڈال کر ان کی جوانی کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر رہا ہے۔
چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کورونا وائرس نے پوری دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس وقت دنیا بھر میں کورونا کے وبائی مرض سے متاثرین کی تعداد 46 لاکھ سے اوپر چلی گئی ہے اور اس مرض سے تین لاکھ 06 ہزار اموات ہو چکے ہیں جبکہ اس مرض سے بڑی تعداد میں لوگ صحتیاب بھی ہو چکے ہیں۔کورونا کے وبائی مرض سے ہمارے ملک میں کل تک38307 شہری متاثر ہوئے ہیں جس میں 822 شہری موت کا شکار ہو گئے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ اس مرض سے صحتیاب بھی ہو چکے ہیں۔ کورونا کے اس وبائی مرض کیلئے دنیا بھر میں جو اقدامات اٹھائے گئے جس شہر یا علاقے میں یہ مرض پایا گیا وہاں کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کرکے شہریوں کو گھروں تک محدود کیا اور شہریوں کو کھانے، پینے کی چیزیں بہم پہنچائی گئیں۔
پتہ نہیں کیوں میرے دل میں یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں،بہ ظاہر حکومت نام کی کوئی چیز ضرور موجود ہے لیکن یہ واقعی عوامی حکومت ہے۔ابراہیم لنکن نے کہا تھا کہ”عوام کی حکومت،عوام کے ذریعے، عوام کے لیے“ تب بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت کیوں نہیں ہے کیونکہ جب عوام کے ذریعے حکومتیں منتخب نہیں ہوتی ہیں تو عوام ان کا درد سر کیوں؟ ایک پرانا مقولہ ہے کہ ”محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے“ تو مطلب یہ ہوا کہ ہم حالات جنگ میں ہیں تو یہ حکومت بھی جیسے تیسے لنگڑی لولی ہے۔
بلوچستان میں بہت ہی کم مثالیں ملیں گی کہ ایماندار آفیسران صوبے کے ماتھے کے جھومر یا فخربنے ہوں۔ آپ کو صوبے میں کسی بھی لائق فائق ایماندار آفیسر صوبے کی کسی اہم پوسٹ پر نہیں ملے گا بلکہ یوں کہئے کہ ایمانداری کو اب انعام اور ایوارڈ نہیں بلکہ سزا ملتی جا رہی ہے جو ایمانداری کریگا اسے منسٹرز تک تھپڑیں مارتے ہوں گے۔ جہاں منسٹرز سیکرٹریز پر ہاتھ اٹھاتے ہوں وہاں یقینا میرٹ اور گڈ گورننس کا جنازہ ہی نکلے گا-گزشتہ ماہ سیکرٹری ہیلتھ کے ساتھ اس طرح کی عزت افزائی کا واقعہ بھی رونما ہوا تھا۔
جب انصاف دینے والی عمارتیں جاگیر داروں کی کوٹھیاں بننے لگیں تو اس ملک میں ترقی نہیں، تباہی ڈیرے ڈالتی ہے۔اس دھرتی سندھ کی جب عزتیں یعنی مائیں بہنیں انصاف کیلئے در بدر ہوں اور قاضی کے منہ پر تالا ہو تو وہاں باغی ہی پیدا ہوں گے۔جب ریاست اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو انصاف نہ دے سکے تو ایسی ریاست کو ریاست مدینہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے۔
پریل کے آغاز میں سوشل میڈیا پر ایک خبر بڑی تیزی سے گردش کررہی تھی اور ساتھ ہی ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی جس میں پولیس سی ایم سیکٹریٹ کے سامنے احتجاج کرنے والے ینگ ڈاکٹرز کو منتشر کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دی۔پولیس کی جانب سے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے مظاہرین کو لاک اپ کرنے سے قبل ہی سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور ان کو مارتا پیٹتا دیکھا گیا۔