اگر افغانستان میں امن کی بات کریں تو افغانستان کی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ 1839ء سے لے کر 1842ء تک لڑی جانے والی پہلی جنگِ آزادی سے لے کر آج تک افغانستان میں امن کے ادوار کم اور جنگ کے ادوار زیادہ ہیں۔ افغانستان عالمی طاقتوں کی جنگوں کا مرکز رہا ہے اور عالمی طاقتوں کے لیے قبرستان بھی ثابت ہوا ہے۔1979ء سے 1989ء تک دس سالہ طویل جنگ میں روس کو افغانستان سے شکست ہوئی اور اب 18سالہ طویل جنگ کے بعد امریکہ کو افغانستان سے امن معاہدہ کی صورت میں نکلنا پڑاہے۔
ادارے ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جن ممالک میں سرکاری اداروں کے ساتھ نجی ادارے اور دیگر این جی اوز بھی کام کرتی ہیں وہاں روزگار کے زیادہ مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ جس سے بے روزگاری میں کافی حد تک کمی آتی ہے۔ اس وقت حکومتِ پاکستان کا نصف بوجھ پرائیویٹ اداروں نے اٹھا رکھا ہے۔ اگر ہم پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات کریں تو ان اداروں نے ہمیشہ ملکی ترقی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔پاکستان میں اساتذہ کی ایک کثیر تعداد نجی تعلیمی اداروں میں قوم کے نونہالوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہی ہے۔
میں نے آواران کے مختلف سکولوں کی فہرست بنا کر ان کا دورہ کیا جن میں مڈل سکول بیدی، گرلز ہائی سکول بیدی، گرلز مڈل سکول سوراب، گرلز ہائی سکول آواران ٹاؤن، بوائز پرائمری سکول سوراب، بوائز ہائی سکول کہن زیلگ، پرائمری سکول انامی بھینٹ، بوائز مڈل سکول ماشی، گرلز سکول کہن زیلگ اور ایجوکیشن سینٹرز شامل تھے۔ وہاں کے اساتذہ سے ملاقاتیں کیں انہیں اپنے آنے کا مقصد بیان کیا، ان کے مسائل سنے، بچے اور بچیوں کو سنا۔ سکولوں کو مسائل کا آماجگاہ پایا۔ اسپورٹس گراؤنڈ، پانی، واش رومز اور دیگر مسائل کا سامنا کرتھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جو بجٹ ان سکولوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے وہ جاتا کہاں ہے۔ صوبائی سطح پر بیٹھے ذمہ داران اور پالیسی سازوں کو کیا گراؤنڈ کی اس صورتحال کی خبر ہے جس صورتحال کا سامنا یہاں کے بچے اور اساتذہ کر رہے ہیں۔ یہ خاکہ اوجھل ہے۔ سکولوں تک رسائی ہم بائیک کے ذریعے کرتے رہے،بائیک کی یہ سہولت ہم خیال دوستوں کی مرہونِ منت تھی۔
کراچی جو اس وقت دو کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے یہاں بہت سے رفاعی ادارے اور سماجی رہنما اپنے حصے کا کام کررہے ہیں جس میں صحت کے شعبے میں ڈاکٹر ادیب رضوی ایس آئی یو ٹی انڈس اسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری اپنے کام کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا ہرشخص کی لوگوں میں قدر وقیمت اور احترام اس کے ہنر سے ہے۔انسان اپنے لئے توہر کوئی جیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کے لئے جیتے ہیں وہ اللّہ کے خاص بندے ہوتے ہیں جو اللّہ کے فضل و کرم سے اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیتے ہیں۔
چین سے نمودار ہونے والا کورونا وائرس بے احتیاطی اور لاپرواہی برتنے کے سبب آج پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اورلاکھوں افراداس خطرناک وائر س کا شکارہوچکے ہیں اور پوری دنیا میں اس وقت تک یہ وائرس ایک لاکھ بارہ ہزار سے زائد افرادکی زندگیاں نگل چکا ہے کورونا وائرس نے آج پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اوریہ وائرس تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان میں با آسانی پھیل رہا ہے دنیابھرکے ماہرین طب اس مرض کا علاج تاحال تک دریافت نہیں کرسکے ہیں صرف احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے پر زوردیا جارہا ہے پاکستان میں بھی اس وقت کوروناوائرس مزیدپھیل رہاہے حکومت وقت نے اس سے بچاؤ کیلئے ہنگامی اقدامات کرکے عوام کے وسیع ترمفادات میں بعض فیصلے کیے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کرکے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا گیا ہے۔
کرونا وائرس یقیناحکومت کے لیے ایک بہت بڑا متحان ہے لیکن آٹا چینی اسکینڈل اور پاور سیکٹر اسکینڈل اس سے بھی بڑا متحان ثابت ہو سکتا ہے۔ جہاں تک کرونا وائرس کی بات ہے تو پاکستان میں اس وقت کرونا سے متاثرین کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ اس موذی مرض ے مرنے والوں کی تعداد 85 سے زائد ہو چکی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت شدید خطرات سے دو چار ہے کیونکہ پاکستان کرونا وائرس سے پہلے ہی معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ بلوم برگ کی تازہ رپورٹ کے مطابق دو سال میں عالمی معیشت کو پانچ ہزار ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ظاہر ہے عالمی معیشت کا پاکستانی معیشت پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔
کرہ عرض پر کوئی ایک ایسا ملک نظر نہیں آتا جو کورونا کی وجہ سے متاثر اور پریشان نہ ہو۔ بڑی سے بڑی طاقتیں بھی اس وباء کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہیں، بڑی سے بڑی معاشی و عسکری اعتبار سے دنیا کو اپنی دن دگنی رات چگنی کامیابی وکامرانی پر دھاک بٹھانے والی عالمی طاقتیں بے بس ہو کہ رہ گئی ہیں، روزانہ کی بنیاد پر کورونا کیسز میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے، اب تک کے امداد و شمار کے مطابق کورونا سے بری طرح متاثر ملک سرفہرت امریکہ ہے۔
قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جناب جسٹس جاوید اقبال نے چیئرمین نیب کے عہدے کی ذمہ داریا ں 11اکتوبر 2017 کو سنبھالیں جن کا حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر انتخاب کیا کیونکہ جناب جسٹس جاوید اقبال بے داغ ماضی انتہائی ایماندار، قابل، میرٹ اور صرف اور صرف قانون کے مطابق کام کرنے کی شہرت اور عزاز رکھتے ہیں ان کی دیانتداری،اچھی شہرت،پیشہ ورانہ صلاحیتوں،ایمانداری اور قابلیت کی گواہی معاشرے کے تمام طبقوں کے افراد دیتے ہیں۔
کورونا کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پوری دنیا خوف میں مبتلا ہے کرہ ارض پر بسنے والے کروڑوں لوگوں پر خوف طاری ہے اور لوگ اپنی جان کی امان پاکر اپنے اپنے گھروں میں مقید ہیں جہاں ساری دنیا اس عالمی وباء سے لڑرہی ہے تو پاکستان بھی اس موذی وباء سے متاثر ہے جس کے بعد پورے ملک کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں او پی ڈی بند کردیئے گئے ہیں،اور دیگر بیماروں کا کوئی پرسان حال نہیں. عالمی وباء کورونا کی ہلاکت خیزیاں اور ملک میں اس حوالے سے سہولیات کی عدم دستیابی کو دیکھکر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس اسٹاف مریضوں کے علاج سے انکاری ہیں. حفاظتی لباس اور کٹس نہ ملنے پر احتجاج بھی کررہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس نے بہت ترقی کی ہے۔ ٹیکنالوجی ہماری زندگی کا لازم جزو بن چکی ہے جس کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی کے اتنے فوائد ہیں اگر گنوانے شروع کئے جائیں تو کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ مگر اس تحریر میں ہم صرف ایک فائدہ ذکر کریں گے اور وہ بھی ایسا فائدہ کے دنیا دیکھ کر دنگ رہ جائے گی۔ جی ہاں ایسا فائدہ کہ آپ بھی گھر بیٹھے وہ کام کرسکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا یہ فائدہ وٹس ایپ حکومت تشکیل دینا ہے۔ آپ بھی چاہیں تو گھر بیٹھے وٹس ایپ حکومت بنا سکتے ہیں۔ جس کا آسان طریقہ کار بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے بتایا ہے۔ بلوچستان ویسے تو ہر لحاظ سے پسماندگی کا شکار ہے مگر ٹیکنالوجی میں جو ترقی بلوچستان نے کی ہے اس پر بلوچستان کے ہر باشندے کو فخر ہونا چاہیے۔