پروردگار نے ہمیں ایک ایسی سرزمین سے نوازا ہے جس میں قدرتی وسائل کا انبار ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہاہے کہ بلوچستان کے باسی کس حال میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں اس کا اندازہ کوئی لگا نہیں سکتا۔ہر طرف غربت ، پسماندگی ، ناانصافی اور بیروزگاری کا عالم ہے۔نجانے کیوں ہمارے ساتھ یہ سلوک روا رکھاجارہاہے؟ کیا ہم اس ملک کا حصہ نہیں ہیں؟
پچھلے چند روز سے مختلف اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر “پارہ پچاس ڈگری پر پہنچ گیا،گرمی سے بچے سکولوں میں بے ہوش ہو گئے” اور پچھلے کئی دنوں سے پڑنے والی شدید گرمی کو خود محسوس کر کے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔بنی نوع انسان کی پیدائش کیلیے جن اجزاء کا ذکر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ان میں سے ایک مٹی Soil بھی ہے۔کرہ ارض کی بالائی تہہ مٹی کہلاتی ہے۔
بلوچستان کے ضلع خضدار کا نام سنتے ہی ایک طرف معروف سیاستدان کے نام یادآتے ہیں جنہیں ملکی کی سیاست کا محور کہاجاتا ہے۔ اس ضلع نے بلوچستان کو چار وزرائے اعلیٰ اور ایک گورنر بھی دیا۔دوسری جانب یہ ضلع اغوا برائے تاوان سمیت دیگر سماجی برائیوں کاگڑھ بھی سمجھاجاتا ہے۔ جہاں مختلف مضبوط و منظم گروہ سرگرم ہیں۔یہاں تاجروں اور سیاسی کارکنان کااغواروز کامعمول بن چکاہے۔ 2008 سے اب تک مختلف علاقوں سے 85 ہندو تاجروں کو تاوان کے لئے اغواکیاگیاجن میں سے تین کو مزاحمت پر قتل کردیاگیا جس کی وجہ سے کئی لوگ نقل مکانی کر کے سندھ اور انڈیا بھی چلے گئے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کا خواب دیکھا تھا ان کے اس خواب کو قائداعظم محمد علی جناح کی بے لوث اور جرات مندانہ قیادت نے حقیقت کا روپ دیا۔ ہندوستان میں جب مسلمانوں پر ظلم و ستم بڑھا تو وہاں کے مسلمانوں میں اپنے لیے ایک الگ ملک کے جذبات پروان چڑھنے لگے تھے۔ پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا تاکہ اپنے ملک میں مسلمان آزادی کے ساتھ اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ پاکستان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر کئی مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں اور اسلام مذہبی اقلیتوں کے تخفظ کی مکمل ضمانت دیتا ہے۔
پاکستان کے وجود آنے کے بعد بلوچستان کی تاریخ ہمیشہ سے غیر مستحکم ہی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کسی اور صوبے میں جب لوگ بلوچستان کا نام سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں صوبے کا جو خاکہ بنتا ہے وہ بھی یقینا بد امنیکاہوگا۔ مختلف سیاسی افراتفریوں کے باعث یہ صوبہ پسماندہ ہی رہا۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے جب موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی سربراہی میں بلوچستان حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تب بھی لوگوں کی امیدیں اس پارٹی کو لیکر حوصلہ افزاء نہیں تھیں لیکن اس حکومت نے مختصر عرصے میں وہ کارکردگی دکھائی جسے دیکھ کر عوام کے ذہن پارٹی سے متعلق غلط فہمیوں سے نکل گئے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا تقریباً 44 فیصد ہے اس لیے باقی صوبوں کی نسبت یہاں ترقیاتی کام ہمیشہ ہی کم نظر آتے ہیں۔اس صوبے کی بدقسمتی دیکھیں کہ صوبائی دارالحکومت بھی 70 سالہ تاریخ میں غیر ترقی یافتہ شہر دکھائی دیتا تھا تاہم بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت کے بعد کوئٹہ کے شہری پہلی بار ترقی کے مناظر دیکھ رہے ہیں کہ ان کا شہر بدل رہا ہے۔
بلوچستان میں روز اول سے ہی ہر صوبائی حکومت نے عوام کی صحیح ترجمانی کرنے اور مسائل کو حل کرنے کے بجائے وفاق اور طاقتور طبقات کی خوشنودی کیلئے عوام پر حکمرانی کی ہے جس کا واضح ثبوت ہر سال بجٹ سے قبل بلوچستان کی ترقیاتی فنڈز کا اربوں روپے لیپس کرا کر ان آقاؤں کی خوشنودی حاصل کی جاتی رہی ہے۔ صد افسوس عوامی بجٹ لیپس کرنے والے ان حکمرانوں نے بلوچستان کی بربادی، تباہی، بد حالی، پسماندگی اور احساس محرومیوں کو ختم کرنے کے بلند و بانگ دعوے،وعدے اور اعلانات کرنے کے باوجود اربوں روپے کی ترقیاتی فنڈز کولیپس کراکر بلوچستان کے عوام کے حقوق پر شب خون مارنے کے مترادف کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت باالخصوص وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان، چیف سیکرٹری بلوچستان محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ،محکمہ خزانہ اور صوبائی بیوروکریسی کا بلوچستان سے مخلصی کا اعلیٰ اور بے مثال ثبوت ہے۔
بلوچستان کا نام سنتے ہی قدرتی ذخائر، بے شمار پہاڑی سلسلے، چشمہ و کاریزات اور دیگر انعاماتِ خداوندی کا تصور ذہن میں گونجنے لگتی ہے کہ یہ سرزمین خدا کی خاص خصوصی نظر کرم اور مہربانیوں کا گہوارہ ہے۔ جہاں یہ سرزمین زیر زمین ہزاروں ذخائرِ معدنیات و قیمتی اشیاء سے مالامال ہے تو دوسری طرف محل و وقوع کے اعتبار سے تین ملکوں سے ملنے والی ایک ایسا خطہ بھی ہے جہاں ملک کے سمندری حدود اور آبی بندرگاہیں وقوع پذیر ہے۔
اس وقت گوادر کے نوجوانوں کی جانب سے گوادر یونیورسٹی کے قیام کے لئے سوشل میڈیا کے تمام ذرائع پر #GwadarNeedsUniversity کی ہیشٹیگ کی کمپین جاری ہے۔ بالخصوص سماجی رابطے کی سب سے موثر ترین ویب سائیٹ ٹویئٹر پر یہ کپمین زوروں پر ہے۔ اس کے علاوہ گوادر یونیورسٹی کی کمپین کا پلے کارڈ گوادر کا ہر شہری تھامے ہوئے سوشل میڈیا پر گوادر یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
سیاسی جماعتیں اگر وقت و حالات کے ساتھ اپنا جائزہ لینے سے قاصر رہے ،آئین و منشور کو فراموش کرتے رہے،آئین کو عمل میں لانے سے گریز کرتے رہے، افکار و نظریات پس منظرمیں چلے گئے،اظہار رائے کے آزادی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے،جمہوریت پسندی محض خواب ہی رہے ،تنقید برائے تعمیر خود ساختہ منصبی و شخصی وقار و آبرو کی بے توقیری سے مربوط رہے،سیاسی سوال منصبی و شخصی مخالفت سے منسلک ہوتے رہے،احتسابی عمل معیوب سمجھے جانے لگیں،کارکناں کی خدشات و تحفظات کی کوئی وقعت نہ رہے،آئین و منشور سے منحرف اراکین، عہدیداران اور نماہندگان کے خلاف موئثر تادیبی کاروائی(سزا و جزا کا عمل)ماند پڑھ جائے، تو یقینی طور پر ایسی سیاسی جماعتوں کو وقت کی بے رحم موجیں بہا کر لے جاتی ہیںیا حالات کی سخت تپش انہیں پگھلا دیتی ہے۔
بلوچستان جہاں ہمیشہ سے ظلم و جبر کا راج رہا ہے انگریز استعمار کی دور حکمرانی سے لے کر ہر آنے والے سول وڈکٹیٹر حکمرانوں نے بلوچ ماں دھرتی اور بلوچ قومی تشخص کو مٹانے کیلئے اپنی تمام تر جملہ توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بلوچ وطن کے فرزندوں کو ظلم و جبر و تشدد کا نشانہ بنایا مسخ شدہ لاشوں کے تحفے دیئے گئے گرفتاریوں کے بعد غائب کردیا گیا ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندوں کو اپنے مادر وطن سے زبردستی بے دخل کیا جاتا رہا قدرتی دولت سے مالا مال دھرتی پر دائمی قبضہ گیری کو برقرار ، جاری آپریشن سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں آگ و خون کی ہولی کا دور دورہ رہا بلوچستان کی تاریخ میں ایسے نڈر سپوتوں کی طویل فہرست ہے۔