بلوچستان کی سیاست میں کچھ عرصے سے بلوچستان عوامی پارٹی موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور بار بار بلوچستان کی قوم پرست قیادت یہ الزام لگاتی ہے کہ راتوں رات ایک نئی جماعت بنائی گئی اور اسے اقتدار سونپ دیا گیا ۔قوم پرست قیادت کا مئوقف اپنی جگہ لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ کل تک دامے درمے سخنے اسی جماعت بی اے پی میںموجود افراد یا شخصیات یا تو ان قوم پرستوں کے اتحادی رہ چکے ہیں یا مل جل کر معاملات چلاتے رہے ہیں ۔قوم پرست قیادت کا بیانیہ سننے والوںکو ٹھیک لگتا ہے لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس جماعت کو ایک تھنک ٹینک نے بنایا ہے۔
سال ۰۲۰۲ کا وسط دنیا بھر کے طلباء و طالبات کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ یادیں تلخ ہوں یا حسین، یا دونوں کا امتزاج، گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ کچھ ایسے ہی تاثرات پاکستان میں زیر تعلیم ان طلباء کے ہیں جو آن لائن ایجوکیشن کے ستائے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھیے تو مظلومیت کے دعویدار طلبہ خود بھی واقف ہیں کہ کون کسے ستا رہا ہے۔ پس منظر کچھ یوں ہے کہ جب دھرتی پر کرونا وبا تہلکہ مچا رہی تھی، ہماری عوام مطمعین تھی کہ اس سے ہر حال میں محفوظ رہییگی۔ یہ ملک اگرچہ “چاند” کا ٹکڑا ہے، مگر مریخ پر بھی ہوتا تو اتنی مجال کہاں کہ ہونی کوٹال سکتا۔
اس صورتحال میں ملک کی چوٹی کی قیادت اقتدار کی ہوس میں اس قدر اندھی ہو چکی تھی کہ اسے ملک کی سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ مکتی باہنی کے ہاتھوں ہونے والے ہزاروں معصوم مرد، عورتوں اور بچوں کے قتل عام کی کسی کو پرواہ نہیں تھی۔جنرل یحییٰ خان ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں یہ باور کرایا گیاتھا کہ انتخابات میں کوئی بھی سیاسی پارٹی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔دوسری طرف شیخ مجیب اپنی منصوبہ بندی کیے بیٹھے تھے اور انہوں نے اپنی سیاسی جنگ میں تمام ہتھیار استعمال کیے۔ انہوں نے اپنا وقت اور پراپیگنڈہ مکمل طور پر مشرقی پاکستان کیلئے وقف اور مرکوز کر رکھا تھا۔
بھارت میں کسانوں نے دہلی کی طرف اپنی مارچ کو مزید وسعت دیتے ہوئے ملک گیر ہڑتال کی کال دی ہے۔ بھارتی کسان دراصل تین بلوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جنہیں ستمبر میں لوک سبھا سے پاس کرکے قانون کی شکل دی گئی ہے۔ ان قوانین کے تحت زرعی منڈیوں کو ڈی ریگولیٹ کر دیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں احتمالاً زرعی مصنوعات کے لیے ’’منڈی سسٹم ‘‘ کو ختم کردیا جائے گا جس کے تحت کسانوں کے رزعی اجناس کو حکومت رعایتی نرخ پر خریدتی تھی۔ کسانوں کو اس بات کا ڈر ہے کہ ان قوانین کے نافذ ہونے کے بعد انہیں منڈی کی قوتوں یعنی زرعی دیوہیکل کمپنیوں اور اجارہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔
اس دور میں ہونے والی اقتصادی و صنعتی ترقی سے قطع نظر صدرایوب بہرحال ایک آمر تھے اور کوئی بھی آمر بلا شرکت غیرے دائمی اقتدار کا خواہاں ہوتا ہے اور ایوب خان کو بھی اس سے استثنیٰ نہیں تھا۔چنانچہ صدرایوب خان نے 1962ء میں ملک میں ایسا آئین نافذ کیا جو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح گھوم پھر کران کی اپنی ذات واختیارات پر مرتکز تھا اور 1964ء میں اس آئین کے تحت متنازعہ انتخابات کے ذریعے جس میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح حزب اختلاف کی متفقہ امیدوار تھیں، ایوب خان پانچ سال کی مدت کیلئے دوبارہ صدر بن بیٹھے، صدرایوب کی انتخابی جیت کو یقینی بنانے کیلئے۔
صاحبزادہ صاحب کو ہم سے بچھڑے چار سال ہونے کو ہیںاور آج بھی ہمارے اکثر رسمی و غیر سمی ادبی نشستوں میں اُنا ذکر خیر جاری رہتا ہے کیوں نہ ہو اگر ایک شخص نصف صدی تک ایک دہتکار ی، محکوم اور نظر انداز زبان میں لکھے پڑھے سیکھے اور سکھائے تو اس کافیض تو ویسے بھی جاری رہتا ہ الور انکی تصنیفات اور تالیفات بک شیلف سے جھانکتی ہوئی ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہیں انہوں نے نصف صدی سے زائد اُن کواڑوں پر دستکیں دیں ہیں جو شاہد اب دروازوں کے بجائے کنکریٹ کے ٹھوس وجود میں ڈھل چکی ہیں لیکن وہ تو دستک دینے والوں میں سے تھے جو کواڑ کھل گئے۔
ملک کے سیاسی معاملات تیزی سے تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور استعفوں سے متعلق اپنے روڈ میپ کا اعلان کرکے ملکی سیاست میں ایک ہلچل پیدا کردی ہے جس کے بعد کئی مہینوں سے جاری سیاسی کشمکش اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہونے جارہی ہے جس سے تصادم کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لاہور جلسے میں پی ڈی ایم رہنماؤں کی مذاکرات سے گریزتقاریر سے لگ رہا ہے کہ ملکی سیاست ایک بند گلی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا لاہور جلسے سے خطاب میں یہ کہنا کہ مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے ۔
نصف صدی قبل رونما ہونے والا سقوط مشرقی پاکستان تاریخ اسلام کا بدترین سانحہ تھا جس پر بہت کچھ لکھاجاچکا ہے اورآئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔اس سانحے کے بہت سے پہلو تھے، کچھ مصنفین نے اسے احساس محرومی کا نتیجہ قرار دیا توبہت سے مبصرین نے اسے محض اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی سے گریز جبکہ دیگر نے اسے صرف پاکستان کی فوجی شکست سے تعبیر کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بقول قابلؔ اجمیری ؎
15 نومبر 1999ء کی صبح ریڈیو شریعت کابل نے اعلان کیا کہ کل صبح کابل فٹبال اسٹیدیم میں سرعام سزائے موت دی جائے گی۔اس خبر کو سنتے ہی اگلی صبح سولہ نومبر کابل فٹبال اسٹیڈیم میں عام لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی، طالبان راہ گیروںکو اسٹیدیم کے اندر جانے اورر موت کا تماشا دیکھنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ سرعام سزائے موت کا وقت دو بجے رکھا گیا تھا۔ شروع کے ۲۰ سے ۳۰ منٹ طالبان لیڈران اسلامی بیانات کرہے تھے۔ آج وہ خوش تھے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون نافذ کیا جارہا ہے۔ طالبان کونسل،طالبان شریعہ لاء اور امیر امارت اسلامی ملا محمد عمر نے خود اس سزائے موت کی منظوری دی تھی۔ زرمینہ دو اور خواتین کے بیچ ایک سرخ رنگ کی پک اپ میں بیٹھی ہوئی تھی۔
موسم سرما کے شروع ہوتے ہی گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس سال بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں گیس کی قلت اور کم پریشر نے گیس صارفین کا جینا دوبھر کردیا ہے ، صبح و شام گیس نہ ہونے کے باعث خواتین کو تہجد کے وقت بیدار ہو کر کھانا پکانا پڑتا ہے اس پریشان کن صورتحال کے باعث شہری کالجز ، یونیورسٹیز ،دفاتر اور دکانوں پر ناشتہ کئے بغیر جانے پر مجبور ہیں۔ اس سلسلے میں شہریوں کا کہنا ہے کہ سردیاں شروع ہوتے ہی گیس غائب ہوجاتی ہے ۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ بد ستور جاری ہے ۔