سیاسی جدو جہد سے حاصل ہونے والے ملک میں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دینے کی کوششوں کا آغاز ابتدائی ایام سے کردیا گیا تھا۔ سیاست کو عوام کے سامنے لوٹ مار، کرپشن، اقرباء پروری اور ہوس اقتدار کے طور پیش کیا جاتا رہا ہے۔ قائد اعظم محمدعلی جناح اور لیاقت علی خان کے بعداس ملک کو فلاحی ریاست کے بجائے ایک سیکیورٹی اسٹیٹ بنانے کی کوششوں کا آغاز کردیا گیا تھا جس کے لیے یہ ضروری تھا کہ سیاست اور سیاستدانوں کو عوام کے سامنے بے اعتبار اور بے توقیر بنا کر پیش کیا جائے۔ ہر دفعہ ملکی آئین کو توڑ کر مارشل لاء نافذ کرنے کے لیے عذر یہی پیش کیا جاتا تھا کہ ملک کو “سیکیورٹی خطرات” نے گھیر لیا ہے۔
عید قرباں سے قبل اے پی سی کا اعلان ہوا لیکن تاریخ نہ آئی،اسی اثناء میں میر حاصل خان بزنجو کینسر سے لڑتے لڑتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اسکے چند ہی دنوں بعد اپوزیشن کی اے پی سی کا اعلان ہوگیا۔میرحاصل خان بزنجو کی وفات اور سردار اختر مینگل کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے عدم شرکت کی اطلاع آنے کے بعد اے پی سی کی میرے لئے قومی سطح پر تو اہمیت کی حامل تھی لیکن بلوچستان کے حوالے سے کوئی خاص جوش نہ تھا لیکن اس موقع پر جو کچھ ہونا تھا جو کچھ ہوا وہ میرے اندازے میں نہیں تھا۔ میاں نواز شریف کی اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول ہونے کی خبر پر میرے کان کھڑے ہوگئے۔
“سید ضیاء عباس کو یاد نہیں رہا کہ یہ تینوں طالب علم لیڈر این ایس ایف کی قیادت (مجلس عاملہ) کے رکن تھے، ان کی ہی قیادت میں دو سالہ گریجویشن کی بحالی کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی۔ یہ تینوں لیڈر دو بار شہر بدر ہوئے۔ دوسری بار شہر بدر کیے جانے والوں میں، میں بھی شامل تھا۔ ہم سب این ایس ایف کے رکن اس وقت بھی تھے جب 1958 میں اس پر بطور“سیاسی تنظیم”پابندی عائد کی گئی اور اس وقت بھی جب مارشل لاء ختم کیا گیا اور سیاسی تنظیموں پر سے پابندی اٹھا لی گئی۔ سید ضیاء عباس یہ تو مانتے ہیں کہ انھوں نے این ایس ایف سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
کون حسین نقی؟ جب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھری عدالت میں چیخ کر یہ بات کہی تو عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چیف جسٹس کا انداز بڑا غیر مہذب اور طنزیہ تھا، یہ ممکن ہی نہیں کہ لاہور کے باشعور لوگوں جن میں وکلاء، جج صاحبان، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں، ان میں سے شاذ ہی ایسا کوئی فرد ہوگا جو حسین نقی کو نہ جانتا ہو۔ چیف جسٹس کی اس حرکت کو باشعور حلقوں اورخصوصاً صحافیوں نے سنجیدگی سے لیا، چیف صاحب کو لینے کے دینے پڑگئے۔ پاکستان کے بڑے پریس کلبوں میں حسین نقی کے اعزاز میں تقریبات منعقد ہوئیں۔
قزاق بحری ڈکیت کو کہتے ہیں جو سمندر میں لوٹ مار کرتے ہیں، وہ بحری جہازوں اور کشتیوں کو لوٹتے ہیں۔ قزاقوں کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سمندروں میں لوٹ مار کرنے کے بعد اپنی دولت جزیروں پر چھپاتے تھے۔ اور وہ جزیروں کو اپنی پناہ گاہوں کے طورپر بھی استعمال کرتے تھے۔ اب دنیا میں قزاقی کا پیشہ دم توڑگیا ہے ماسوائے صومالیہ میں کبھی کبھی ان کی سرگرمیوں کو خبریں آتی ہیں۔ لیکن آج کل پاکستان میں یہ قزاقی کا پیشہ سراٹھا رہا ہے۔ یہ قزاق سمندر کے بجائے خشکی میں رہتے ہیں۔ اور وہ سمندر سے گیارہ سو کلومیٹر دورکوہ مارگلہ کے دامن میں رہتے ہیں۔
اپوزیشن کی حالیہ اے پی سی کے بعد روز سوچا کچھ لکھوں لیکن کیا لکھوں کیسے لکھوں کچھ لکھا کچھ مٹا دیا اب تو اے پی سی بھی پرانی ہوگئی تو سو چا قسطوں میں لکھوں تو آج فیصلہ کیا کہ میاں محمد نواز شریف کی تقریر پر لکھوں لیکن پھر مسئلہ وہی کیا لکھوں کیسے لکھوں ایسے کسی معاملے پر جہاں قومی سطح پر کچھ بولنا یا لکھنا ہوتا تھا۔تو میری رہنمائی کوئی مہربان نے کردی ہے گو کہ میں جن افراد سے رہنمائی لیتا ہوں انکی ہر بات سے اتفاق نہیں کرتا لیکن بڑی حد تک کوشش کرتا ہوں کہ اپنی میموری میں وہ باتیں ضرور رکھوں جو مجھے ٹھیک لگیں اور ایک معاملے پر مختلف الخیال لوگوں سے الجھنا میری عادت ہے۔
کسی مفکر کا قول ہے کہ “اگر دو دن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے تو تیسرے دن گفتگو میں وہ شیرینی باقی نہیں رہتی یعنی انداز تکلم تبدیل ہوجاتا ہے”۔ مطلب یہ ہے کہ کتب بینی سے ہمیں ٹھوس دلائل ملتے ہیں اور بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ صاحب مطالعہ شخص کی باتوں میں جان ہوتی ہے۔ وہ جب بولتا ہے تو سنجیدہ ہوکر مدلل انداز میں لب کشائی کر تاہے۔ عصر حاضر میں ترقی کا اصل سبب وہ مکتوب علم وہنر ہے، جو کتابوں کی شکل میں ایک عظیم خزینے کی مانند موجود ہے۔ اگر یہ علم ایسا محفوظ نہ ہوتا تو آج کے یہ ترقی یافتہ ممالک سریا نہیں بلکہ تحت الثریٰ پر ہو تے۔
معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات اور سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین لیفٹینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باوجوہ کے اعلان کے مطابق وزیراعظم نے کراچی‘ کوئٹہ،چمن ایکسپریس وے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت 790کلو یٹر طویل یہ شاہراہ ”بناؤ، چلاؤ اور منتقل کرو“ کی پالیسی کے تحت تعمیر ہوگی۔منصوبے کی فزبیلٹی اور کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے عمل شروع ہوچکا ہے ان کے بقول بھاری ٹریفک اور بڑھتے ہوئے حادثات کی وجہ سے اس شاہراہ کی تعمیر ناگزیر ہے۔دوسری طرف وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اس اہم منصوبے کی منظوری پر وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے اظہار تشکر کرتے ہوئے۔
ملکی سیاست اس وقت ملاقاتوں کے گرد طواف کررہی ہے۔ یہ ملاقاتیں کس حد تک مقدس اور مقدم ہیں اس متعلق ہم آگے روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے لیکن فی الوقت کون، کب اور کس جگہ عسکری قیادت سے ملاقات کا شرف حاصل کرچکا ہے۔ یکے بعد دیگرے انکشافات نے تجزیوں، تبصروں اور ٹی وی ٹاک شوز کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے ہر طرف ان مقدس ملاقاتوں کا چرچا ہے۔ کوئی ان کو جائز اور وقت کی ضرورت سمجھ رہا ہے تو کوئی ان کی مخالفت کرکے سیاست دانوں کے دوہرے کردار کا مذاق اڑا رہا ہے۔
جدید ترقی اور سول لائزڈ معاشرے میں ترقی کا آغاز پسماندہ علاقوں سے ہی کیا جاتا ہے جبکہ آئین پاکستان بھی پسماندہ اور عدم ترقی کے حامل علاقوں اور صوبوں کی ترقی کی ترجیحی بنیادوں پر وکالت کرتی ہے۔ بلوچستان ملک بلکہ یوں کہا جائے کہ خطے کا پسماندہ ترین علاقہ ہے توبے جا نہ ہوگا بلوچستان کو ستر کی دھائی سے صوبہ کا درجہ ملا ہے لیکن اب تک کسی بھی حکمران نے صوبے کی پسماندگی اور بڑا رقبہ ہونے کے باعث کوئی بھی میگا منصوبہ کا آغاز نہیں کیا یا کسی بھی حکمران نے بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کا سوچا تک نہیں ہے۔