چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کورونا وائرس نے پوری دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس وقت دنیا بھر میں کورونا کے وبائی مرض سے متاثرین کی تعداد 46 لاکھ سے اوپر چلی گئی ہے اور اس مرض سے تین لاکھ 06 ہزار اموات ہو چکے ہیں جبکہ اس مرض سے بڑی تعداد میں لوگ صحتیاب بھی ہو چکے ہیں۔کورونا کے وبائی مرض سے ہمارے ملک میں کل تک38307 شہری متاثر ہوئے ہیں جس میں 822 شہری موت کا شکار ہو گئے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ اس مرض سے صحتیاب بھی ہو چکے ہیں۔ کورونا کے اس وبائی مرض کیلئے دنیا بھر میں جو اقدامات اٹھائے گئے جس شہر یا علاقے میں یہ مرض پایا گیا وہاں کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کرکے شہریوں کو گھروں تک محدود کیا اور شہریوں کو کھانے، پینے کی چیزیں بہم پہنچائی گئیں۔
پتہ نہیں کیوں میرے دل میں یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں،بہ ظاہر حکومت نام کی کوئی چیز ضرور موجود ہے لیکن یہ واقعی عوامی حکومت ہے۔ابراہیم لنکن نے کہا تھا کہ”عوام کی حکومت،عوام کے ذریعے، عوام کے لیے“ تب بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت کیوں نہیں ہے کیونکہ جب عوام کے ذریعے حکومتیں منتخب نہیں ہوتی ہیں تو عوام ان کا درد سر کیوں؟ ایک پرانا مقولہ ہے کہ ”محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے“ تو مطلب یہ ہوا کہ ہم حالات جنگ میں ہیں تو یہ حکومت بھی جیسے تیسے لنگڑی لولی ہے۔
بلوچستان میں بہت ہی کم مثالیں ملیں گی کہ ایماندار آفیسران صوبے کے ماتھے کے جھومر یا فخربنے ہوں۔ آپ کو صوبے میں کسی بھی لائق فائق ایماندار آفیسر صوبے کی کسی اہم پوسٹ پر نہیں ملے گا بلکہ یوں کہئے کہ ایمانداری کو اب انعام اور ایوارڈ نہیں بلکہ سزا ملتی جا رہی ہے جو ایمانداری کریگا اسے منسٹرز تک تھپڑیں مارتے ہوں گے۔ جہاں منسٹرز سیکرٹریز پر ہاتھ اٹھاتے ہوں وہاں یقینا میرٹ اور گڈ گورننس کا جنازہ ہی نکلے گا-گزشتہ ماہ سیکرٹری ہیلتھ کے ساتھ اس طرح کی عزت افزائی کا واقعہ بھی رونما ہوا تھا۔
جب انصاف دینے والی عمارتیں جاگیر داروں کی کوٹھیاں بننے لگیں تو اس ملک میں ترقی نہیں، تباہی ڈیرے ڈالتی ہے۔اس دھرتی سندھ کی جب عزتیں یعنی مائیں بہنیں انصاف کیلئے در بدر ہوں اور قاضی کے منہ پر تالا ہو تو وہاں باغی ہی پیدا ہوں گے۔جب ریاست اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو انصاف نہ دے سکے تو ایسی ریاست کو ریاست مدینہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے۔
پریل کے آغاز میں سوشل میڈیا پر ایک خبر بڑی تیزی سے گردش کررہی تھی اور ساتھ ہی ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی جس میں پولیس سی ایم سیکٹریٹ کے سامنے احتجاج کرنے والے ینگ ڈاکٹرز کو منتشر کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دی۔پولیس کی جانب سے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے مظاہرین کو لاک اپ کرنے سے قبل ہی سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور ان کو مارتا پیٹتا دیکھا گیا۔
آپ کبھی اپنے بچے کے پاس بیٹھ کر اس چیز کی لسٹ بنائیں کہ وہ خود سے کتنا سوچتا ہے اور کتنا کام کرتا ہے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے اندر قوتِ ارادی موجود ہے۔اسی قوت کی بدولت وہ نئے اقدامات کرکے زندگی میں آگے بڑھے گا۔
دنیا کے تمام مشاغل اور کاموں میں اگر کوئی بہترین اور حساس کام ہے تو وہ بچوں کی تربیت ہے۔تمام والدین کی یہ بھرپور خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ ایک بہترین انسان بنے جس کی دنیا بھی اچھی ہو اور آخرت بھی۔اس مقصد کے لیے وہ ہرممکن کوشش کرتے ہیں اور اسی فکر میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔گزشتہ آرٹیکل میں ہم نے والدین کی کچھ عمومی غلط فہمیوں کی نشاندہی اور ان کے حل کے بتائے تھے۔آج کی اس نشست میں ہم ”عادات“ کے بارے میں اہم عوامل سپردِ قلم کریں گے۔
آج کل پاکستان میں دو ہی چیزیں خاص اہمیت کی حامل ہیں کرونا اور ارطغرل غازی۔۔۔۔ پاکستان میں کسی چیز کی مقبولیت کااندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کو بآسانی اس کے پاپڑ میسر ہیں کہ نہیں۔۔۔۔جی ہاں اب آپ کسی بھی دکاندار سے ارطغرل پاپڑ حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔۔ ارطغرل غازی پر پہلے بھی کئی جگہوں پر بہت بات ہوئی ہے۔۔۔۔۔ مغربی دنیا نے اسے سافٹ ایٹم بم بھی قرار دیا ہے۔۔۔۔۔ جس میں یقینا بہت شاندار طریقے سے اسلامی تاریخ اور اقدار کو دکھایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔ الفاظ کی خوب صورتی کی بھی انتہا ہے۔۔۔۔۔دل پر اثر کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اللہ اور اسکے رسول کی بات کی گئی ہے۔۔۔۔جو یقینا ایمان کو تازہ کرتی ہے اور روح کو جھنجھوڑتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ بیشک ایک بہترین پیش کش ہے۔۔۔۔۔بہت ضروری ہے کہ ہمیں ہمارے اسلاف کا پتہ ہو اور ان روایات اور اقدار کا جن سے ہم بہت دور چلے گئے تھے۔۔۔۔ راستوں میں کھو گئے تھے۔۔۔۔۔
کورونا وائرس پرسرار حالت میں اپنی پوری خامیوں، خرابیوں اور شرانگیزیوں کے ساتھ انسانوں کے دل و دماغوں پر چھایا ہوا ہے جس کے نتیجے میں خوف کا ہونا فطری بات ہے۔ یہ وائرس پرسرار اس لیے ہے کہ اس کا علم خود مریض کو وائرس کی رپورٹ مثبت آنے پر ہوتا ہے۔ اس وائرس کا شکار ہونے کی علامات نہ بھی ہوں تو کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ آنے کے بعد مریض کو یہ خطرناک اطلاع دے دی جاتی ہے کہ آپ کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ گویا آپ معاشرے کے اچھوت انسان بن گئے ہیں۔ کورونا کے اکثر ٹیسٹ کا رزلٹ پازیٹیو آنے کی اطلاعات عام ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ٹیسٹ کی رپورٹ منفی آئے تو بیش تر ڈاکٹرز خصوصاً کورنگی کراسنگ کے قریب واقع بڑے خیراتی اسپتال کے ماہر ڈاکٹرز ایسی منفی رپورٹس کو درست تسلیم کرتے ہی نہیں۔
نصیرآباد ڈویژن بلوچستان کا زرعی اور زرخیز علاقہ ہے اور یہاں گندم کی بمپر فصل اور وافر مقدار میں پیداوار ہوتی ہے۔ صوبائی حکومت محکمہ خوراک کے ذریعے ہر سال گندم خریداری کرتی ہے اور اس کیلئے ہمیشہ بہت دیر کی جاتی ہے لیکن سابقہ ادوار اور موجودہ کورونا وائرس جیسے وباء کی پریشانی کے باعث گندم کی خریداری بیوپاریوں نے بلوچستان حکومت سے قبل شروع کی۔ جب گندم کی ساٹھ فیصد سے زائد کوئٹہ کے بیوپاری خریداری کر چکے تھے تو پھر حکومت کو خریداری مراکز قائم کرنے کا خیال آیا۔ بلوچستان حکومت نے آج تک کسی بھی فیصلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی بہتر پلاننگ کی جاتی ہے، اب گندم خریداری مراکز گندم کی فصل ختم ہونے کے بعد کیا خریداری حدف پورا کر سکیں گے یقینا جہاں ٹھوس منصوبہ بندی نہ کرکے گندم کی خریداری کا نہ تو ہدف پورا کیاجا سکا ہے۔