2018کے انتخابات سے کچھ ہی عرصے قبل صوبے میں ایک نئی جماعت وجود میں آئی جس کے بانی سعید احمد ہاشمی ہے اور پارٹی کا نام بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) رکھا گیا۔ پارٹی قیام میں آتے ہی پارٹی اراکین نے سیاسی ریس میں برتری حاصل کرنے کیلئے اپنے اپنے گھوڑے سنبھال لئے۔ خیر الیکشن ہوئے اور بلوچستان عوامی پارٹی نے اپنے فتح کے جھنڈے گھاڑ دئیے اور صوبے میں اکثریت حاصل کرلی لیکن حکومت بنانے کیلئے ان کو دیگر پارٹیوں کا ساتھ درکار تھا لہٰذا انہوں نے مرکز میں اکثریت سے جیتنے والے پارٹی کے اراکین یعنی پی ٹی آئی کے علاوہ اے این پی، ایچ ڈی پی، بی این پی عوامی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
سیاسی زرف نگاہوں کا نقطہ نظر اپنی جگہ صائب ہے کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے ان کے نزدیک حزب اختلاف اور حکومت میں ہم آہنگی کیو نکر ہو سکتی ہے جبکہ حزب اختلاف کا کام بھی یہی ہوتا ہے حکومت کی کارکر دگی پر نظر رکھنا، ان کی بنائی گئی پالیسیز کی نشاندہی کرنا، معاملات اگر قومی مفادات سے ہٹ کر ہوں حکومت پہ جائز تنقید کرنا لیکن جب معاملات کرونا جیسی عفریت سے نمٹنے جیسے ہوں تو اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اس کی طرف جھکاؤ سیاسی بالغ نظری ہے۔باقی اتفاق رائے کے بجائے اختلاف رائے کو قائم رکھنا مزید دراڑیں پیدا کرنے کے مصداق ہے۔
یہ بات بھی سچ ہے سلطنت عثمانیہ مسلمانوں کی عظمت ورفعت کی ایک درخشندہ مثال ہے اورترک ڈرامہ ارتغرل میں اس کی بہترین اندازمیں منظرکشی کی گئی ہے۔لیکن کیاہم برصغیرکے مسلمانوں کے پاس مقامی مسلم سپہ سالاروں کی اس جیسی مثالیں موجودنہیں ہیں؟
مغربی میڈیا میں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے کہ عراق کا نیا وزیر اعظم ایرانی حمایت یافتہ ہے۔ اس بات پر امریکی اور اسرائیلی حکام میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ عراق میں ایرانی حمایت یافتہ سیاسی اور مذہبی گروہوں نے نئے نامزد عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ چونکہ امریکہ اور ایران عالمی سیاست میں روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں اس لیے امریکہ کی پسند ایران کی نا پسند اور ایران کی پسند امریکہ کی ناپسندہوتی ہے،دوسری وجہ یہ ہے کہ ایران کی وزارتِ خارجہ نے نئے عراقی وزیر اعظم کی نامزدگی کا بھر پور خیر مقدم کیا ہے۔
میں آواران میں تھا دیگر دوستوں میں اسد عطا، یاسر ناصر، اکرم اکبر، تنویر میروانی، وسیم میروانی، حسن میروانی، نبیل ارمان، جلیل معراج، شکیل بلوچ، سالم بلوچ اور دیگر احباب نے ہمیں آواران میں جوائن کیا تھا۔ پروین ناز کراچی میں جبکہ عابد میر، نواز فتح اور نجیب اللہ سرپرہ کوئٹہ میں پروگرام کو ترتیب دینے میں مصروف تھے۔ اسٹوڈنٹس کی ایک ٹیم جو کراچی، کوئٹہ اور اوتھل میں مقیم تھی سب سے رابطہ جاری تھا۔ ڈگری کالج آواران کے اسٹوڈنٹس کی بڑی تعداد بطور رضاکار ہمارے ساتھ شامل ہو چکی تھی۔ پروفیسر شکیل بلوچ اور اس کا اسٹاف بھی ہمارے ساتھ تھاہم پروگرام کو ترتیب دینے اور منیجمنٹ کی تیاریاں کر رہے تھے۔
کرونا واثرس اور لاک ڈاون کی وجہ سے بے شمارمسائل نے جنم لیا۔لوگ بے روزگار ہوگئے۔دیہاڑی دارطبقہ گھروں میں فاقوں کا شکار ہوا یے۔مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد گھروں میں قید دوا?یوں سے محروم یے۔ان مسائل کے باوجود اللہ تعالی نے پاکستانی قوم کو فیاضی وسخاوت سے بھی نوازا ہے۔پاکستانی عوام خیرات کرنے والے صف اول کے ممالک میں شامل ہیں۔وطن عزیز کے شہری سالانہ دو سو چالیس ارب روپے اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر کرونا کی وباء نے جو تباہی مچارکھی ہے پاکستان اور خصوصاً بلوچستان میں اس کے اثرات نے روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے تمام سرکاری اور نجی ادارے بند ہیں اور صوبائی سیکریٹریٹ میں محدود پیمانے پر چند محکموں میں سرکاری امور نمٹاے جارہے ہیں، وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت بھی عوام کی جان کے تحفظ کے لیے سرجوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے کرونا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے متعدد احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
ناوول کورونا (کوویڈ19-) جس نے دنیا بھر میں تباہی مچا دی ہے اور آدھی سے زیادہ دنیا لاک ڈاؤن ہوچکی ہے۔ عالمی تجارتی منڈیاں خسارے میں جارہی ہیں، پیداواری عمل تقریباً رک چکا ہے، ایسے حالات میں پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ دنیا کے ترقی پذیر ممالک جو اپنی اقتصادیات و معیشت بچانے کے لئے پہلے سے ہاتھ پیر مار رہے تھے وہ بھی تجارتی کساد بازاری کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ کورونا (کووڈ19-) وائرس پاکستان میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے۔ وفاقی حکومت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اس سے نبردآزما ہونے کے لئے کوشاں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے غیر سنجیدہ بیانات کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ غیر سنجیدہ بیانات کی وجہ سے نہ صرف تنقید کا نشانہ بنتے ہیں بلکہ ان کے غیر سنجیدہ بیانات اور اقدامات مخالفین کے لیے فائدے کا باعث بھی بنتے ہیں۔حال ہی میں پیو ریسرچ نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق مختلف ممالک کے لوگ مجموعی طور پر امریکی صدر ٹرمپ پر درست اقدامات کرنے سے متعلق کم بھروسہ کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف 29%یہ سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ عالمی امور پر درست اقدامات کر سکتے ہیں۔
پاکستان اورایران کی سرحدیں تقریبا ً 960کلومیٹر پر محیط ہیں جہاں انسانی آمد ورفت اور تجارتی سامان کی ترسیل کیلئے ٹرانسپور ٹ کی نقل وحرکت کیلئے تین کراسنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں۔جس میں تفتان،گوادر اور پنجگو ر شامل ہیں۔کوئٹہ سے 600کلومٹر فاصلے پر واقع تفتان ایک چھو ٹا ساسرحد ی ٹاون ہے جس کی آبادی تقریباً 14 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔جہاں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔پاکستان میں عالمی وبا کرونا وائرس کے حملے کا آغاز بلوچستان میں ایران سے ملنے والی سرحد تفتان کے علاقے سے ہی ہوا۔ ایران سے آنے والے زائرین کے ساتھ آئے یہ وائرس بڑے پیمانے پر ہمارے ملک میں داخل ہوا۔