میرا موضوع بیچارہ مہمان پرندہ تلور ہے اور نہ اماراتی یاقطری شہزادے بلکہ میرا موضوع خاران اور واشک کے غریب اور پرامن عوام ہیں جن کو مفاد پرست اپنی ذاتی مفادت کی جنگ میں قبائلی تعصب اور نفرت کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں
ایڈمرل منصور الحق پاکستان نیوی کے سربراہ تھے، وہ 10 نومبر 1994ء سے یکم مئی 1997ء تک نیول چیف رہے، منصور الحق پر ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 300 ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگا، میاں نواز شریف نے یکم مئی 1997ء کو انھیں نوکری سے
ایک مرتبہ شیطان محفل جمائے بیٹھا تھا اور اپنے شاگردوں سے دن بھرکا احوال معلوم کررہاتھا ۔تمام چیلے اپنے کارہائے نمایاں بیا ن کرتے رہے مگر شیطان صاحب ان کی طرف متوجہ نہ ہوا۔
مو ضوع پر جانے سے قبل ایک مختصر روداد بیان کرنے میں کیا قباحت ہے ۔خاکسار کی گزشتہ حقیرانہ تحریر میں اپنی کوتابینی اور کم علمی کے اظہار پر احباب کی پرُ خلوص اپنائیت نے طالب علم کی ناتواں انگلیوں میں نہ صرف جان ڈال دی
سی پیک کی اہمیت کو عالمی سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے ۔یہ صرف 57 بلین ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ نہیں بلکہ اسکے تحت چا ئنا 3000کلو میٹر طویل ،کاشغر سے لیکر گوادر تک روٹ کی تعمیر ،پائپ لائن اور ریل کی پٹڑی بچھانے کا منصوبہ شامل ہے ۔ اسکے علاوہ چین پاکستان کے توانائی کے شعبے میں بھی مالی وفنی معاونت کریگا ۔
صوبہ بلوچستان میں خشک سالی کا سماں ہے پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے وجہ یہ ہے کہ موسم گرما میں مون سون ہوائیں خلیج بنگال سے اُٹھ کر کوہ ہمالیہ سے ٹکراتی ہوئی پاکستان میں پہنچ جاتی ہیں تو صوبہ پنجاب، صوبہ سندھ اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں خوب بارشیں برساتی ہیں
نااہلی اور تحقیق کے فقدان کے علاوہ لاپرواہی اور غفلت کا عنصر اس ملک کے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ صحت کے متعلقہ محکموں اور اسپتالوں میں بھی انتہائی عمومی ہے۔
قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان آج بھی احساس محرومی کی دھوپ میں پسماندگی کی تپش لیئے ترقی کے ڈگر پر ہچکولے کھا رہاہے۔۔۔۔ جہاں صحت و روزگار جیسی بنیادی سہولیات اب بھی عوام کی دسترس سے دور ہیں۔۔۔
بلوچستان خزانہ کیس میں سابق سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی اور ٹھیکیدار سہیل مجید شاہ کے اعتراف جرم اور پلی بارگین کی درخواست نے ملک بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، جتنے منہ اُتنی باتیں، بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں، کوئی نیب کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے
حسبِ معمول درس وتدریس کے عمل سے فارغ ہونے کے بعد جب تھکا ہارا رات کو گھر پہنچا توایک سفید رنگ کا لفافہ اپنے اندر ایک کارڈ کو سمیٹے میرے کمپیوٹر ٹیبل کی زینت بنا ہوا تھا ، فورًااس کارڈ کی طرف متوجہ ہوا