چین کے شہر ووہان سے دسمبر 2019 کوکورنا وائرس منظر عام پر آنے لگا یوں چند ہی ماہ میں اس وائرس نے تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اس وائرس کی حیرت انگیزطور پر انسان سے انسان میں تیز ترین منتقلی ہیو من ٹرانسمیشن کی صلاحیت کی وجہ سے تیزی سے وائرس پھیلنے لگا اس تیزی سے وائرس سے ہلاکتیں سامنے آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وائرس نے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جن کا حفظان صحت کافی بہتر تھا اور یوں کوویڈ کی وجہ سے یومیہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔
آبادی کے اعتبار سے چین کے بعد بھارت دنیا کا دوسرا اور رقبے کے لحاظ سے ساتواں بڑا ملک ہے۔ کئی تاریخی اور ثقافتی مشترکات کے باوجود بنگلا دیش اور پاکستان کے بھارت سے اختلافات ہیں۔ سری لنکا اور نیپال کی صورت حال بھی لگ بھگ یہی ہے اور سری لنکا اور نیپال کا معاملہ بھی کسی حد تک ایسا ہی ہے۔ دوسری جانب خود بھارت میں پائی جانے والے اندرونی اختلاف کی کئی پرتیں ہیں۔ بھارت کے بالادستی کے رویے کے باعث جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ بھارت خود کو سپر پاؤر سمجھتا ہے۔
بلوچستان میں غریبی، بے روزگاری، بے وسی ، بے حسی اور پد منتگی کی بیماریاں کیا کم تھے کہ کینسر بھی بلوچ کے حصے میں آیا۔ اب تک بلوچستان میں کسی کے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کینسر آخر کس چیز کا بدلہ بلوچ سے لے رہا ہے کیوں کہ بلوچ نے آج تک کیسنر کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے ہاں اگر غصے میں بول دیا ہوگا کہ “کینسر ترا کینسر بجنت” کینسر آپکو کینسر مارے تو یہ کونسی غلط بات ہوئی کیوں کہ اگر کینسر موت بن کر آئے گا تو بدلے میں کوئی مظلوم بد دعا دینے کے سوا اور کر بھی کیا سکے گا۔ بلوچستان میں ادیب شاعر یا گشندہ ہونا یا زبان کے لیے خدمت کرنا سب سے بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے، جن کو زمینی خدا مارتا تو ہے۔
ہمارے پیارے ملک میں سیاستدانوں احتساب کی انتہائی بھیانک تاریخ رہی ہے جس کی شروعات ایک آمر جنرل ایوب خان نے کی تھی ،انہوں نے ایبڈو کے ذریعے سیاستدانوں کو سیاست سے بیدخل کیا تھا ،اس کے بعد ایک اور جنرل ضیاء نے بھی احتساب کو ہتھیار بنایا جنرل ضیا کے عبرتناک انجام کے بعد ان کے لاڈلوں نے بھی احتساب کو مشغلہ بنایا اور احتساب کی آڑ میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو وحشیانہ انتقام کا نشانہ بنایا ،اس وحشیانہ احتساب کا نشانہ صدر آصف علی زرداری بار بار بنتے رہے ہیں انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین دن قید میں گذارے۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دیکھ دیکھ کر جب خود کو خاطر خواہ پریشان کر لیا تو جی چاہا کہ تھوڑا افاقہ کرنا چاہیے…فارغ وقت میں اور کیا کیا جاسکتا تھا… ٹی وی بند ہوا تو سوچنے لگی کہ زندگی کیسے محدود ہو گئی ہے، سڑکیں ویران ہو گئی ہیں، سب اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں… ہمیں تو کورونا سے لڑنا تھا مگر ہم تو آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔جانے کیوں ہمیں انصاف پانے کیلیے پہلے بے انصافی کرنا پڑتی ہے، انسانیت کو مجروح کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں مسلمانوں کی ساکھ کو بچانا ہے ،ان کی ناموس کی حفاظت کرنی ہے. بیشک اس کو ہر صورت میں یقینی بنانا چاہئے۔
آج سے کئی سال پہلے کی بات ہے کہ اس خطہ پر ایک گاؤں ہوا کرتا تھا جو کہ ایک ایسے قوم کی ثقافت کا امین تھا جو خود اپنی بقاء کی خاطر اپنے اقدار و روایات کو تحفظ دینے میں مگن رہتا تھا۔چونکہ قوموں کی پہچان ثقافت سے ہے لہذٓا ثقافت انسان کے اظہار کا ذریعہ ہے۔مزید برآں برطانوی اور فرانسیسی آثار قدیمہ کی سروے ٹیموں نے اس قوم کی ثقافت کو دنیا کا ایک منفرد ، مخصوص اور دوسری قدیم ثقافتوں کے مقا بلے میں مضبوط ثقافت قرار دیاہے، اس گاؤں میں ایسا دن نہیں تھا کہ یہاں کے باسی اپنی ثقافت کو زندہ نہ رکھتے تھے۔
ضلع آواران بلوچستان کے سورش زدہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ خطہ اپنے محل وقوع اور جغرافیائی حوالے سے افغانستان کے تورہ بورہ کے پہاڑی سلسلہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ اونچے اونچے پہاڑ اور سینکڑوں غاروں پر مشتمل تین سے زائد پہاڑی سلسلے یہاں واقع ہیں۔ جو آواران سے شروع ہوکر ضلع پنجگور، ضلع کیچ اور ضلع گوادر کے مختلف سمتوں میں جاملتے ہیں۔ سورگر پہاڑی سلسلہ اورناچ سے شروع ہوکر جھاؤ، ہنگول اور اورماڑہ تک چلا جاتا ہے۔ اسی طرح نال سے کوہ شاشان کا سلسلہ جھاؤ سے لیکر بحرہ بلوچ تک جاتا ہے۔
دنیا کا یہ ضابطہ ہے،کوئی انسان تنہا زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ ہرانسان زندگی بسرکرنے میں دوسرے انسانوں کا محتاج ہے۔ ہر انسان کی زندگی دوسرے انسانوں کے تعاون کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔کوئی انسان دوسرے انسانوں کے تعاون کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے اورتعاون لیتے ہوئے ہی انسان کو زندگی کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور ایک مثالی معاشرہ وہی ہوتا ہے، جس میں تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے اورحاجت مندوں کی ضرورت کو پورا کرتے زندگی گزارنے کو اپنا فرض سمجھیں۔
ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا، بہت ہی محنتی تھا، اس نے اپنی محنت سے اپنے ٹوٹے پْھوٹے گھر کو تیار کر کے ایسا سجایا کہ ہر جگہ اس کے چرچے ہونے لگے، گاؤں کا وڈیرا پوری زندگی جگت بازی میں پورا رہتا تھا، لہٰذا جہاں تھا، وہیں کا وہیں رہ گیا۔ اس کی حالت میں ایک پیسے کی ترقی یا جدت نہیں آئی ، بالآخر ایک دن وڈیرے کو غصہ آگیا، اور کہنے لگا کہ ہاری کا گھر اس (وڈیرے) کا ہے، لہٰذا کسان کو اپنا گھر جلد از جلد خالی کر دینا چاہئے ، اب وہ گھر “وڈیرے” کا مسکن ہے۔ اس کہانی میں کسان، “سندھ” اور “وڈیرہ” وفاق ہے۔
پاکستان میں سیاسی،سماجی اور معاشی تنزل کا راز موجودہ رسمی نظام تعلیم ہے۔جسکے مثبت اثرات کے بجائے معاشرے پر مسلسل منفی اثرات پڑرہے ہیں۔معاشرے کے کسی بھی شعبے کو دیکھا جائیں تو سارے کے سارے زبوں حالی کے شکار ہیں۔اخلاقی طور پر لوگ روز بروز کرپٹ نکلتے جارہے ہیں اور سائنسی طور انکا کوئی خاطر خواہ کنٹربیوشن نہیں۔تخلیقی صلاحیتیوں پر کام کرنے بجائے اور انھیں ابھارنے کے بجائے مختلف طریقوں سے دبایا جاتا ہیں۔تعلیمی ادارے لرننگ انسٹیٹیوشنز کے بجائے کمائی کے ادارے بن چکے ہیں۔جہاں بچپن سے لیکر یونیورسٹی سطع تک نئی نسل کو خوف اور نفرت سکھائی جاتی ہیں۔