پٹ فیڈر کینال اور کسانوں کی تباہ حالی

| وقتِ اشاعت :  


پٹ فیڈر کینال کی تعمیر سے قبل اوچ، مانجھوئی اور شاہی کینال کی کمانڈ میں زیر کاشت رقبہ بلوچستان کا سب سے زیادہ زرخیز اور آباد علاقہ ہوا کرتا تھا یہاں پر ہر قسم کے باغات ہوا کرتے تھے اور اس علاقہ کے آم کے باغات بہت مشہور ہو کرتے تھے یہاں گندم اور چاول کے علاوہ ہر قسم کی سبزیاں اور پھل کاشت کئے جاتے تھے 1967 ء میں پٹ فیڈر کینال کی تعمیر کا کام مکمل ہوا یہ نہر شاہی کینال، اوچ اور مانجھوئی کینال کے زیر کاشت رقبہ کے بالائی حدود کے اوپر ریتیلی زمین میں تعمیر کی گئی تھی پٹ فیڈر میں پانی سپلائی کے فوراً بعد سیم و تھور کے مسائل ابھرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے۔



بلوچستان کے تعلیمی ادارے آگ کی لپیٹ میں

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں ایک بار پھر تعلیمی اداروں کو جلانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یکے بعد دیگرے اسکولوں کو نذرآتش کیا جارہا ہے۔ یہ واقعات بلوچستان کے مکران ڈویژن میں رونما ہورہے ہیں جس سے علاقے میں ایک خوف اور ڈر کا سماں ہے۔ سیاسی اور سماجی حلقوں نے ان واقعات کو تعلیم دشمن عمل قراردیا اور کہا کہ ان عناصر کو سرپرستی حاصل ہے۔ بغیرسرپرستی کے ایسے واقعات ممکن نہیں۔ حال ہی میں بلیدہ کے علاقے الندور میں نامعلوم افراد نے گورنمنٹ ہائی سکول کو نذر آتش کردیا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔



ایک نظر بلوچستان پر

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے اس کا رقبہ کل ملکی رقبے کا 45 فیصد ہے۔بلوچستان میں آپ کو ریگستان ،پہاڑ،جنگلات و جنگلی حیات، میدانی علاقہ جات،سمندراور سمندری حیات، گرم علاقے، سرد علاقے دیکھنے کو ملیں گے۔ بلوچستان میں ہر قسم کے پھل پھول،سبزیاں،باغات وکھیت کلیان موجود ہیں۔ بلوچستان دنیا بھر میں پائے جانے والے تمام نعمتوں سے مالا مال ہے۔ اگر ایک نظر باغات پر دوڑائی جائے تو آپ کو بہترین سے بہترین پھل اور سبزیاں اس سرزمین پر ملیں گی۔ بلوچستان کی زمین معدنیات سے بھری پڑی ہے۔



“Daughter of Destiny”

| وقتِ اشاعت :  


اس نے اپنی کتاب Daughter of Destiny میں خود کودخترمشرق قرار دیاتھا لیکن دنیا نے اس کامقام اس سے بھی سوا جانا۔ نہیں یقین تو 1996؁ء کی گنزبک آف ورلڈریکارڈ اٹھاکردیکھ لیجیے جس میں اسے عصر حاضر کی مقبول ترین سیاست دان قراردیاگیاورنہ 4؍مئی 1996؁ء کے ’ٹائم‘ اور’آسٹریلین میگزین‘ دیکھ لیجیے جن میں اسے دنیا کی سو طاقتور ترین خواتین میں شمار کیاگیاتھا۔اعزازات اس کے بے شمارہیں، وہ کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم تھی، وہ پاکستان کی سب سے کم عمروزیراعظم بھی تھی، وہ پاکستان کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور سب سے زیادہ اعزازیافتہ وزیراعظم بھی تھی۔



27 دسمبر کی شام شہید بی بی تجھے سلام

| وقتِ اشاعت :  


شہید بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 ؁ء کو کراچی میں پیدا ہوئی، وہ اپنے والد قائد عوام کی پیا ر ی پنکی تھیں، انہوں نے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی جمہو ری سوچ کو لیکر آگے بڑھی شہید بھٹو کی شہا دت کے بعد 1986 ؁ء میں پاکستان آئیں تو عوام کے ٹھا ٹھے ما رتے سمندر نے اُن کا پر تبا ک استقبال کیا اس طرح اس عوامی سمندر ضیا ء آمریت کو شکست دے دی ثابت ہوا شہید ذوالفقار علی بھٹو کا وہ بنیا دی سلو گن کہ ” طاقت کا سر چشمہ عوام ہے”



امریکی جمہوریت کا کڑا امتحان

| وقتِ اشاعت :  


چار سال قبل ٹرمپ امریکی سیاست کے لیے ایک اجنبی نام تھا اور یہ تصور بھی محال تھا کہ وہ صدارتی انتخاب جیت لے گا۔ امریکی سیاست کے بااثر حلقوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ہیلری کلنٹن کی جیت یقینی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کسی نے ٹرمپ کو سنجیدہ نہیں لیا اور صدارتی امیدواروں کے لیے ہونے والی روایتی کڑی جانچ پڑتال کے بغیر ہی انہیں میدان میں اترنے دیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے ’’ریڈ نیک‘‘ (سرخ گردن) کہلائے جانے والے سفید فام امریکیوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس طبقے کی اکثریت فیکٹری مزدور ہے ۔



قائداعظم ۔کام ابھی باقی ہے!

| وقتِ اشاعت :  


قائداعظم محمد علی جناحؒ کا یوم ولادت مناتے ہوئے راقم کے ذہن میں اواخر نومبر1985؁ء کے ایک واقعے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ روزنامہ’’ نوائے وقت ــ‘‘اسلام آباد (تب یہ راولپنڈی سے شائع ہوتا تھا) کے رپورٹر جناب نواز رضا راولپنڈی پریس کلب کے صدر منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے ماہوار پروگرام’’میٹ دی پریس‘‘ کا آغاز کیاتھا جس میں ہر ماہ ملک کی نمایاں شخصیات کو اظہارخیالات کیلئے مدعو کیا جاتا تھا۔جناب نواز رضا پروگرام کی پریس ریلیزتمام اخبارات کوجاری کروانے کیلئے خود ہی سپرمارکیٹ میں واقع پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) کے دفتر آجایا کرتے تھے ۔



مسکرایا کیجئے، اچھا لگتا ہے

| وقتِ اشاعت :  


مسکرایا کیجئے ، اچھا لگتا ہے… غم ہلکا لگتا ہے… غم اور خوشی زندگی کا حصہ ہیں… چاہتے ہوئے بھی آپ انہیں جدا نہیں کرسکتے.. الگ نہیں کرسکتے مگر زندگی جینا تو ہے، تو پھر غموں پر کڑھنے اور رونے کی بجائے کیوں نہ خوشیوں کا ہاتھ تھام لیا جائے… ایسا نہیں ہے کہ زندگی میں صرف غم ہی ہو، اندھیرا ہی ہو… روشنی بھی ہے…. خوشی بھی ہے، بس ہمیں اس طرف بھی دیکھنا ہے… ہاتھ بڑھانا ہے…. اسے تلاش کرنا ہے اور بانٹنا ہے… یہی تو زندگی ہے. ہمیں کوشش کرنا ہے کہ ہم تلخیوں اور محرومیوں کو پس پشت ڈال کر خوشیاں ڈھونڈنا اور بانٹنا سیکھ جائیں۔



گوادر شکنجے میں

| وقتِ اشاعت :  


یہ 2018 کی بات ہے جب میں کچھ دوستوں کے ہمراہ گوادر کتب میلہ میں شرکت کے لیے گوادر جارہا تھا۔ راستے میں مختلف ریاستی اداروں کے چیک پوسٹوں پر اپنے پاکستانی ہونے کے ثبوت فراہم کرتے کرتے جب گوادر شہر کے داخلی چیک پوسٹ پر پہنچے تو سمجھنے لگا کہ شاید یہاں بھی وہی روایتی سوالات کا جواب دے کر اور پاکستانی ہونے کے ثبوت پیش کرنے کے بعد ہمیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی لیکن ہمارا اندازہ غلط نکلا، اپنی مکمل شناخت کرانے کے بعد جب سیکیورٹی اہلکار نے سوال کیا۔