گوادر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، دنیا کی نظریں جہاں سی پیک اور گوادر پر ہیں، وہیں بلوچستان کے باسی ان نظروں کی وحشت ناکی اور استحصال کی جال کو پہلے سے محسوس کر گئے ہیں۔گوادر کو اخبارات اور جرائد کی صفحات پر ملکی ترقی کی پہلی سیڑھی سمجھا جاتا ہے گوادرکو کشمیر کے بعد دوسرا شہ رگ قرار دیا جائے گا، سیندک ہو یا ریکوڈک سبھی تو ملکی ترقی میں کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ ترقی اور امن بلوچستان میں نظر نہیں آتے ،بلوچستان میں ترقی نظر آتی ہے تو گمشدہ افراد کی ترقی، بے روزگار افراد کی، بڑھتی خودکشیوں کی ، ماؤں اور بہنوں کی سسکیوں آہوں کی ، ماہی گیروں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی یعنی بلوچستان میں استحصال کی ترقی تو ہوتی ہے۔
دو دوست اور برادر ممالک اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تاریخی تعلقات میں 19 دسمبر، 2020 ایک یادگار دن ہوگا۔ اس دن ایک تاریخی پیش رفت کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین تفتان بارڈر کے علاوہ دوسری رسمی بارڈر کا باقاعدہ افتتاح ہوگیا۔گبد- ریمدان بارڈر (سرحدی گزرگاہ) آخر کار دونوں ممالک کے مابین کئی سالوں کے اتار چڑھائو کے بعد باقاعدہ طور پر کھول دیا گیا۔ دونوں ممالک کے مابین دوستانہ اور برادرانہ تعلقات میں اس اہم اقدام کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے ان کی تجارتی اور معاشی صلاحیتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
20؍دسمبر 2007ء کو گل جی اپنی اہلیہ اور ملازمہ کے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر مردہ پائے گئے، انہیں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ گل جی کا قتل فن کا قتل تھا، ثقافت و تہذیب کا قتل تھا، حسن، شرافت اورنیک نامی کا قتل تھا ، اورایک عہد اور ایک تاریخ کاقتل تھا۔یہ عہد 16؍دسمبر 2007 ء کو ختم ہو چکاتھااور تاریخ مٹ چکی تھی لیکن چار روز تک کسی کوخبرتک نہ ہوئی تھی۔ کیا بے خبری تھی کہ وطن کی آن ، بان اور شان کواپنے فن کے ذریعے دنیابھر میں چارچاند لگانے والا اور وطن کے کینوس میں ان گنت رنگ بکھیرنے والا خود خوں رنگ ہوچکا تھا۔
سندھ کے دو جزائر کو پرائیویٹ کمپنی کے حوالے کرنے کے بعد بلوچستان کے دوسرے بڑے جزیرے، چرنا آئی لینڈ کو بھی کمرشل سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ اس منصوبے کوصوبائی حکام سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے خفیہ رکھا گیا ہے۔ چرنا آئی لینڈ کو بلوچستان حکومت ڈبلیو ڈبلیو ایف کی درخواست پر میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) قرار دینے پر غور کررہی ہے۔ میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) ایک بین الاقوامی قانون ہے جس کا مقصد نایاب نسل کے آبی جاندار کی نسل کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔
بلوچستان میں رہنے والے یا یوں کہا جائے کہ بلوچ با الخصوص قول و فعل اور وعدوں کے دھنی ہوتے ہیں وہ جو قول یا اعلان کرتے ہیں اس پر جان قربان کرنے بھی دریغ نہیں کرتے۔ آپ کو بلوچوں کی تاریخ میں ایسے ہزاروں داستان ملیں گے کہ انہوں نے جو وعدہ یا قول کیا اس پر اپنا خاندان اور قوم کی قربانی سے کبھی دریخ تک نہیں کیا۔ لیکن افسوس ہماری سیاست بلوچیت اور عبادت سے ہٹ کر ہی ہے۔ ہماری اب تو روایات بن چکی ہیں کہ جو جتنا زیادہ جھوٹ دھوکہ فریب دینے میں ماہر ہوگا وہ سیاسی میدان کا بڑا کھلاڑی اور عظیم سیاست دان ہوگا۔
گوادر شہر پاکستان کا واحداور منفرد شہرہوگاجہاں ایک ملک میں دو نظام ہوں گے۔ایک ریاست کے اندر ایک چھوٹی ریاست قائم ہوگی۔اس کی اپنی الگ سرحدیں ہوں گی، اور انٹری پوائنٹس بھی ہوں گے یعنی ایک میان میں دو تلواریں ہوں گی۔سیاسی حلقوں کے مطابق شہر کے چاروں طرف باڑلگا کرسیل کرنے کے بعدشہریوں کو اسپیشل پاسز جاری کئے جائیں گے۔ اور شہر میں آنے والوں کو راہداری (ویزہ) کی طرح کے پاسز جاری کئے جائیں گے۔ اس طرح گوادری تہری (تین) شہریت کے مالک ہونگے۔ اس سے قبل وہ دوہری شہریت رکھتے تھے یعنی سلطان آف عمان اور گورنمنٹ آف پاکستان کے شہری تھے۔ اب وہ پاکستان کے اندر دوہری شہریت کے مالک ہونگے۔ ان کے پاس اسپیشل کارڈ ہونگے۔ اس طرح ان کے پاس شہریت کی تین دستاویزات ہونگی۔
یلان بلوچ قوم چاہے جتنے بھی قبائل اور مذاہب ومسالک میں تقسیم ہو جب کرب وبلاء آتے ہیں ،جب مصائب ومشکلات کے بادل چھا جاتے ہیں تو پھر نہ وہ قبائل دیکھتے ہیں کہ یہ فلاں قبیلہ ہے لہذا اسے استثنیٰ حاصل ہے نہ وہ مذاہب دیکھتے ہیں کہ یہ فلاں مذہب سے ہے لہذا… Read more »
بنو ارے بنو مجھے آج کمر میں درد ہے تو تم کچن میں جا کر چولہے کا کام کرو۔ اماں آپ جانتی تو ہیں میں کتنی مشہور ہو رہی ہوں ٹک ٹاک پر۔ میں نے بناو سنگار کیا ہوا ہے تو مجھے آرام سے ویڈیو بنانے دیں۔ مجھے ویڈیو بنا کے باہر آؤ گی اس لئے بار بار تنگ مت کریں۔پھر ماں درد کے باوجود کچن مین جا کے کام کرتی ہے۔ لیکن اولاد کو پروا نہیں کہ وہ مادی چیزوں کے پیچھے بھاگ کر کس سے دور ہو رہے ہیں۔ آج کل ہر بچے کے ہاتھ میں موبائل ہے اور جسے دیکھو ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانے میں مصروف ہے نہ تو انہیں اپنی پڑھائی کا خیال رہا اور نہ ہی اپنے والدین کی عزت کا ایسی لڑکیاں جو شوبز کی دنیا سے کوسوں دور رہتی تھی اب وہ بھی ٹک ٹاک پر ا کے ناچتی ہیں اور اسی کی وجہ سے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے کبہی ان کی تصوریرں لیک کر کے۔اور کچھ کی ویڈیو کے نیچے نامناسب کمنٹ کر کے۔ کچھ انتہائی واحیات مواد اپ لوڈ کرتے ہیں۔ جو اخلاق سے گرا ہوا ہوتا ہے۔ اور کچھ ایسی ویڈیو بناتے ہیں جوقوموں میں تضاد کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں یعنی جو ٹائم ہمیں اپنی پڑھائی پر دینا چاہیے وہ ہم موبائل میں ویڈیو بنانے میں گزار تے ہیں۔ کیونکہ آج کے بچے ہی کل کے معمار ہیں اور اگر آج کے بچے ہی فضول کاموں میں پر جائیں گے تو ہمارے ملک کا کیا بنے گا۔
گوادر شہر میں حفاظتی باڑ کا حصار کھینچا جا رہا ہے۔ مقامی ماہی گیر اس کی وجہ سے شدید اعصابی تناؤ کا شکار ہیں اور بلوچ قوم پرست سراپا احتجاج۔ ایسا لگ رہا ہے، جیسے سمندری ہواؤں پر کانٹوں کے پھندوں کی تعمیر کی جارہی ہے۔
1998ء میں سقوط ڈھاکہ پر ایک ضخیم دستاویز مرتب کرتے ہوئے راقم نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریک تکمیل پاکستان کے سربراہ اور وزیر تاحیات محمود علی سے ایک انٹرویو کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے پاسپورٹ پر بنگلہ دیش کا ویزہ نہیں لگوایا کہ کہیں بنگلہ دیش کا ویزہ لگنے سے پاکستانی پاسپورٹ ناپاک نہ ہوجائے، جنرل نیازی کے بارے میں محمود علی کا کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کی بجائے وہ مرکیوں نہ گیا۔ جب راقم نے ان کی توجہ جنرل نیازی کے اس بیان کی طرف دلائی کہ مذاکرات ہتھیار ڈالنے کیلئے نہیں بلکہ جنگ بندی کیلئے کیے گئے تھے اور ان مذاکرات کی آڑ میں غیر بنگالی باشندوں جن میں خواتین بڑی تعداد میں تھیں، کوبرما کے راستے مغربی پاکستان روانہ کیا گیا تھا تاکہ بھارتی فوجیوں اورباغیوںکے ڈھاکہ میں داخلے کی صورت میںبالخصوص ان خواتین کی عزتیں پامال نہ ہوں،تو محمود علی کچھ دیر کیلئے سوچ میں پڑ گئے اور پھر کہنے لگے شاید وہ ٹھیک کہتا ہے۔اس کے بعد راقم نے محمود علی کو ایک ریٹائرڈ بھارتی جنرل کے بارے میں بتایا جس کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے بعد بھی بھارتی فوج کو مشرقی پاکستان پرقبضے کیلئے ایک ایک انچ پر جنگ لڑنا پڑی کیونکہ مواصلات کا نظام تباہ ہوجانے کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں پاک فوج کے افسران و جوان جنگ بندی سے بے خبر تھے۔جہاںتک سفارتی محاذ کا تعلق ہے، چین مشرقی پاکستان میں سیاسی سمجھوتے کیلئے دہائی دے رہا تھا لیکن صدر یحییٰ خان کو اپنی بد اعمالیوں سے فرصت نہیں تھی، انہیں اس وقت ہوش آیا جب پانی سر سے گزر چکاتھا، اس لئے اقوام متحدہ میں ہماری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔