مسنگ سٹی

| وقتِ اشاعت :  


گوادر شہر پاکستان کا واحداور منفرد شہرہوگاجہاں ایک ملک میں دو نظام ہوں گے۔ایک ریاست کے اندر ایک چھوٹی ریاست قائم ہوگی۔اس کی اپنی الگ سرحدیں ہوں گی، اور انٹری پوائنٹس بھی ہوں گے یعنی ایک میان میں دو تلواریں ہوں گی۔سیاسی حلقوں کے مطابق شہر کے چاروں طرف باڑلگا کرسیل کرنے کے بعدشہریوں کو اسپیشل پاسز جاری کئے جائیں گے۔ اور شہر میں آنے والوں کو راہداری (ویزہ) کی طرح کے پاسز جاری کئے جائیں گے۔ اس طرح گوادری تہری (تین) شہریت کے مالک ہونگے۔ اس سے قبل وہ دوہری شہریت رکھتے تھے یعنی سلطان آف عمان اور گورنمنٹ آف پاکستان کے شہری تھے۔ اب وہ پاکستان کے اندر دوہری شہریت کے مالک ہونگے۔ ان کے پاس اسپیشل کارڈ ہونگے۔ اس طرح ان کے پاس شہریت کی تین دستاویزات ہونگی۔



برّ بلوچ سے بحر بلوچ تک نوحہ کناں ہیں

| وقتِ اشاعت :  


یلان بلوچ قوم چاہے جتنے بھی قبائل اور مذاہب ومسالک میں تقسیم ہو جب کرب وبلاء آتے ہیں ،جب مصائب ومشکلات کے بادل چھا جاتے ہیں تو پھر نہ وہ قبائل دیکھتے ہیں کہ یہ فلاں قبیلہ ہے لہذا اسے استثنیٰ حاصل ہے نہ وہ مذاہب دیکھتے ہیں کہ یہ فلاں مذہب سے ہے لہذا… Read more »



ٹک ٹاک معاشرتی زوال کا ایک ذریعہ

| وقتِ اشاعت :  


بنو ارے بنو مجھے آج کمر میں درد ہے تو تم کچن میں جا کر چولہے کا کام کرو۔ اماں آپ جانتی تو ہیں میں کتنی مشہور ہو رہی ہوں ٹک ٹاک پر۔ میں نے بناو سنگار کیا ہوا ہے تو مجھے آرام سے ویڈیو بنانے دیں۔ مجھے ویڈیو بنا کے باہر آؤ گی اس لئے بار بار تنگ مت کریں۔پھر ماں درد کے باوجود کچن مین جا کے کام کرتی ہے۔ لیکن اولاد کو پروا نہیں کہ وہ مادی چیزوں کے پیچھے بھاگ کر کس سے دور ہو رہے ہیں۔ آج کل ہر بچے کے ہاتھ میں موبائل ہے اور جسے دیکھو ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانے میں مصروف ہے نہ تو انہیں اپنی پڑھائی کا خیال رہا اور نہ ہی اپنے والدین کی عزت کا ایسی لڑکیاں جو شوبز کی دنیا سے کوسوں دور رہتی تھی اب وہ بھی ٹک ٹاک پر ا کے ناچتی ہیں اور اسی کی وجہ سے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے کبہی ان کی تصوریرں لیک کر کے۔اور کچھ کی ویڈیو کے نیچے نامناسب کمنٹ کر کے۔ کچھ انتہائی واحیات مواد اپ لوڈ کرتے ہیں۔ جو اخلاق سے گرا ہوا ہوتا ہے۔ اور کچھ ایسی ویڈیو بناتے ہیں جوقوموں میں تضاد کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں یعنی جو ٹائم ہمیں اپنی پڑھائی پر دینا چاہیے وہ ہم موبائل میں ویڈیو بنانے میں گزار تے ہیں۔ کیونکہ آج کے بچے ہی کل کے معمار ہیں اور اگر آج کے بچے ہی فضول کاموں میں پر جائیں گے تو ہمارے ملک کا کیا بنے گا۔



گوادر: سمندری ہواؤں پر کانٹوں کے پھندے 

| وقتِ اشاعت :  


گوادر شہر میں حفاظتی باڑ کا حصار کھینچا جا رہا ہے۔ مقامی ماہی گیر اس کی وجہ سے شدید اعصابی تناؤ کا شکار ہیں اور بلوچ قوم پرست سراپا احتجاج۔ ایسا لگ رہا ہے، جیسے سمندری ہواؤں پر کانٹوں کے پھندوں کی تعمیر کی جارہی ہے۔



East Pakistan: ‘Witness to Blunders'(4)

| وقتِ اشاعت :  


1998ء میں سقوط ڈھاکہ پر ایک ضخیم دستاویز مرتب کرتے ہوئے راقم نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریک تکمیل پاکستان کے سربراہ اور وزیر تاحیات محمود علی سے ایک انٹرویو کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے پاسپورٹ پر بنگلہ دیش کا ویزہ نہیں لگوایا کہ کہیں بنگلہ دیش کا ویزہ لگنے سے پاکستانی پاسپورٹ ناپاک نہ ہوجائے، جنرل نیازی کے بارے میں محمود علی کا کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کی بجائے وہ مرکیوں نہ گیا۔ جب راقم نے ان کی توجہ جنرل نیازی کے اس بیان کی طرف دلائی کہ مذاکرات ہتھیار ڈالنے کیلئے نہیں بلکہ جنگ بندی کیلئے کیے گئے تھے اور ان مذاکرات کی آڑ میں غیر بنگالی باشندوں جن میں خواتین بڑی تعداد میں تھیں، کوبرما کے راستے مغربی پاکستان روانہ کیا گیا تھا تاکہ بھارتی فوجیوں اورباغیوںکے ڈھاکہ میں داخلے کی صورت میںبالخصوص ان خواتین کی عزتیں پامال نہ ہوں،تو محمود علی کچھ دیر کیلئے سوچ میں پڑ گئے اور پھر کہنے لگے شاید وہ ٹھیک کہتا ہے۔اس کے بعد راقم نے محمود علی کو ایک ریٹائرڈ بھارتی جنرل کے بارے میں بتایا جس کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے بعد بھی بھارتی فوج کو مشرقی پاکستان پرقبضے کیلئے ایک ایک انچ پر جنگ لڑنا پڑی کیونکہ مواصلات کا نظام تباہ ہوجانے کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں پاک فوج کے افسران و جوان جنگ بندی سے بے خبر تھے۔جہاںتک سفارتی محاذ کا تعلق ہے، چین مشرقی پاکستان میں سیاسی سمجھوتے کیلئے دہائی دے رہا تھا لیکن صدر یحییٰ خان کو اپنی بد اعمالیوں سے فرصت نہیں تھی، انہیں اس وقت ہوش آیا جب پانی سر سے گزر چکاتھا، اس لئے اقوام متحدہ میں ہماری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔



بلوچستان عدم اعتماد کی کہانی

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کی سیاست میں کچھ عرصے سے بلوچستان عوامی پارٹی موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور بار بار بلوچستان کی قوم پرست قیادت یہ الزام لگاتی ہے کہ راتوں رات ایک نئی جماعت بنائی گئی اور اسے اقتدار سونپ دیا گیا ۔قوم پرست قیادت کا مئوقف اپنی جگہ لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ کل تک دامے درمے سخنے اسی جماعت بی اے پی میںموجود افراد یا شخصیات یا تو ان قوم پرستوں کے اتحادی رہ چکے ہیں یا مل جل کر معاملات چلاتے رہے ہیں ۔قوم پرست قیادت کا بیانیہ سننے والوںکو ٹھیک لگتا ہے لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس جماعت کو ایک تھنک ٹینک نے بنایا ہے۔



آن لائن تعلیم اور آف ٹریک طلباء

| وقتِ اشاعت :  


سال ۰۲۰۲ کا وسط دنیا بھر کے طلباء و طالبات کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ یادیں تلخ ہوں یا حسین، یا دونوں کا امتزاج، گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ کچھ ایسے ہی تاثرات پاکستان میں زیر تعلیم ان طلباء کے ہیں جو آن لائن ایجوکیشن کے ستائے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھیے تو مظلومیت کے دعویدار طلبہ خود بھی واقف ہیں کہ کون کسے ستا رہا ہے۔ پس منظر کچھ یوں ہے کہ جب دھرتی پر کرونا وبا تہلکہ مچا رہی تھی، ہماری عوام مطمعین تھی کہ اس سے ہر حال میں محفوظ رہییگی۔ یہ ملک اگرچہ “چاند” کا ٹکڑا ہے، مگر مریخ پر بھی ہوتا تو اتنی مجال کہاں کہ ہونی کوٹال سکتا۔



East Pakistan: ‘Witness to Blunders'(3)

| وقتِ اشاعت :  


اس صورتحال میں ملک کی چوٹی کی قیادت اقتدار کی ہوس میں اس قدر اندھی ہو چکی تھی کہ اسے ملک کی سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ مکتی باہنی کے ہاتھوں ہونے والے ہزاروں معصوم مرد، عورتوں اور بچوں کے قتل عام کی کسی کو پرواہ نہیں تھی۔جنرل یحییٰ خان ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں یہ باور کرایا گیاتھا کہ انتخابات میں کوئی بھی سیاسی پارٹی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔دوسری طرف شیخ مجیب اپنی منصوبہ بندی کیے بیٹھے تھے اور انہوں نے اپنی سیاسی جنگ میں تمام ہتھیار استعمال کیے۔ انہوں نے اپنا وقت اور پراپیگنڈہ مکمل طور پر مشرقی پاکستان کیلئے وقف اور مرکوز کر رکھا تھا۔



ہندوستان: مودی کی نیولبرل پالیسیوں کے خلاف کسانوں کا ’’بھارت بند‘‘

| وقتِ اشاعت :  


بھارت میں کسانوں نے دہلی کی طرف اپنی مارچ کو مزید وسعت دیتے ہوئے ملک گیر ہڑتال کی کال دی ہے۔ بھارتی کسان دراصل تین بلوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جنہیں ستمبر میں لوک سبھا سے پاس کرکے قانون کی شکل دی گئی ہے۔ ان قوانین کے تحت زرعی منڈیوں کو ڈی ریگولیٹ کر دیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں احتمالاً زرعی مصنوعات کے لیے ’’منڈی سسٹم ‘‘ کو ختم کردیا جائے گا جس کے تحت کسانوں کے رزعی اجناس کو حکومت رعایتی نرخ پر خریدتی تھی۔ کسانوں کو اس بات کا ڈر ہے کہ ان قوانین کے نافذ ہونے کے بعد انہیں منڈی کی قوتوں یعنی زرعی دیوہیکل کمپنیوں اور اجارہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔



East Pakistan: ‘Witness to Blunders'(2)

| وقتِ اشاعت :  


اس دور میں ہونے والی اقتصادی و صنعتی ترقی سے قطع نظر صدرایوب بہرحال ایک آمر تھے اور کوئی بھی آمر بلا شرکت غیرے دائمی اقتدار کا خواہاں ہوتا ہے اور ایوب خان کو بھی اس سے استثنیٰ نہیں تھا۔چنانچہ صدرایوب خان نے 1962ء میں ملک میں ایسا آئین نافذ کیا جو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح گھوم پھر کران کی اپنی ذات واختیارات پر مرتکز تھا اور 1964ء میں اس آئین کے تحت متنازعہ انتخابات کے ذریعے جس میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح حزب اختلاف کی متفقہ امیدوار تھیں، ایوب خان پانچ سال کی مدت کیلئے دوبارہ صدر بن بیٹھے، صدرایوب کی انتخابی جیت کو یقینی بنانے کیلئے۔