پروفیسر صاحبزادہ حمید اللہ کی یادمیں

| وقتِ اشاعت :  


صاحبزادہ صاحب کو ہم سے بچھڑے چار سال ہونے کو ہیںاور آج بھی ہمارے اکثر رسمی و غیر سمی ادبی نشستوں میں اُنا ذکر خیر جاری رہتا ہے کیوں نہ ہو اگر ایک شخص نصف صدی تک ایک دہتکار ی، محکوم اور نظر انداز زبان میں لکھے پڑھے سیکھے اور سکھائے تو اس کافیض تو ویسے بھی جاری رہتا ہ الور انکی تصنیفات اور تالیفات بک شیلف سے جھانکتی ہوئی ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہیں انہوں نے نصف صدی سے زائد اُن کواڑوں پر دستکیں دیں ہیں جو شاہد اب دروازوں کے بجائے کنکریٹ کے ٹھوس وجود میں ڈھل چکی ہیں لیکن وہ تو دستک دینے والوں میں سے تھے جو کواڑ کھل گئے۔



اپوزیشن کے اہداف اور چیلنجز۔

| وقتِ اشاعت :  


ملک کے سیاسی معاملات تیزی سے تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور استعفوں سے متعلق اپنے روڈ میپ کا اعلان کرکے ملکی سیاست میں ایک ہلچل پیدا کردی ہے جس کے بعد کئی مہینوں سے جاری سیاسی کشمکش اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہونے جارہی ہے جس سے تصادم کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لاہور جلسے میں پی ڈی ایم رہنماؤں کی مذاکرات سے گریزتقاریر سے لگ رہا ہے کہ ملکی سیاست ایک بند گلی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا لاہور جلسے سے خطاب میں یہ کہنا کہ مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے ۔



East Pakistan: ‘Witness to Blunders’

| وقتِ اشاعت :  


نصف صدی قبل رونما ہونے والا سقوط مشرقی پاکستان تاریخ اسلام کا بدترین سانحہ تھا جس پر بہت کچھ لکھاجاچکا ہے اورآئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔اس سانحے کے بہت سے پہلو تھے، کچھ مصنفین نے اسے احساس محرومی کا نتیجہ قرار دیا توبہت سے مبصرین نے اسے محض اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی سے گریز جبکہ دیگر نے اسے صرف پاکستان کی فوجی شکست سے تعبیر کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بقول قابلؔ اجمیری ؎



ملالہ سے ملالہ تک

| وقتِ اشاعت :  


15 نومبر 1999ء کی صبح ریڈیو شریعت کابل نے اعلان کیا کہ کل صبح کابل فٹبال اسٹیدیم میں سرعام سزائے موت دی جائے گی۔اس خبر کو سنتے ہی اگلی صبح سولہ نومبر کابل فٹبال اسٹیڈیم میں عام لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی، طالبان راہ گیروںکو اسٹیدیم کے اندر جانے اورر موت کا تماشا دیکھنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ سرعام سزائے موت کا وقت دو بجے رکھا گیا تھا۔ شروع کے ۲۰ سے ۳۰ منٹ طالبان لیڈران اسلامی بیانات کرہے تھے۔ آج وہ خوش تھے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون نافذ کیا جارہا ہے۔ طالبان کونسل،طالبان شریعہ لاء اور امیر امارت اسلامی ملا محمد عمر نے خود اس سزائے موت کی منظوری دی تھی۔ زرمینہ دو اور خواتین کے بیچ ایک سرخ رنگ کی پک اپ میں بیٹھی ہوئی تھی۔



کوئٹہ ، گیس غائب ، شہری پریشان اور وزیراعظم

| وقتِ اشاعت :  


موسم سرما کے شروع ہوتے ہی گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس سال بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں گیس کی قلت اور کم پریشر نے گیس صارفین کا جینا دوبھر کردیا ہے ، صبح و شام گیس نہ ہونے کے باعث خواتین کو تہجد کے وقت بیدار ہو کر کھانا پکانا پڑتا ہے اس پریشان کن صورتحال کے باعث شہری کالجز ، یونیورسٹیز ،دفاتر اور دکانوں پر ناشتہ کئے بغیر جانے پر مجبور ہیں۔ اس سلسلے میں شہریوں کا کہنا ہے کہ سردیاں شروع ہوتے ہی گیس غائب ہوجاتی ہے ۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ بد ستور جاری ہے ۔



*تاریخی چوکنڈی مقبرے*

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کئی اعتبار سے پاکستان کا نہایت منفرد صوبہ ہے۔یہ بلوچوں کا صوبہ ہے جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔ آثار قدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی ہوتی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات ملے ہیں۔ سکندر اعظم کے فتح سے قبل بلوچستان پر ایرانی سلطنت کی حکمرانی ہوتی تھی۔ اور ان کے اونٹ گھوڑے بہت مشہور تھے۔ بلوچ سرداروں کے گھوڑے دنیا بھر میں بہت مشہور تھے اور وہ اپنے گھوڑوں کو بہت عزیز رکھتے تھے۔



معصومیت کا قتل

| وقتِ اشاعت :  


وہ لاہور شہر کی گلیوں میں بھیک مانگتا تھا کسی نے کچھ مدد کی تو کسی نے دور دفع ہونے کو کہا لیکن اس کی معصومیت اس بات کی تمیز نہیں کر پاتی کہ اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں توکیوں نہیں۔اپنے ماں باپ کے لاڈ پیار سے بچپن میں ہی محروم ہوچکا تھا۔یہ غالباً 1890کا دورانیہ تھا جہاں حال ہی میں دوسری افغان اینگلو وار ختم ہوچکی تھی۔روس اور برطانیہ کے درمیانTHE GREAT GAME کی سیاسی جنگ چل رہی تھی۔لاہور شہر کے میوزیم(WONDER HOUSE)کے سامنے کھیلتے ہوئے اس کی نظر ایک تبتی بڈہسٹ پر پڑتی ہے۔



گوادر پنجرے میں

| وقتِ اشاعت :  


‘‘گوادر’’بلوچی زبان کے دو الفاظ ‘‘گوات اور دَر’’ سے بنا ہے، جس کے معنی ‘‘ہوا کا دروازہ’’ ہے۔ اب یہ ہوا کا دروازہ ہوا کے لئے بند ہورہا ہے۔ گوادر شہر کے گرد سیکورٹی کے نام پر باڑ لگانے کا آغازکردیا گیاہے،پشکان چیک پوسٹ سے لے کر کوسٹل ہائی وے ،گوادر، جیونی زیرو پوائنٹ تک شہر کو مکمل باڑلگا کر سیل کردیا جائیگا۔ باڑ لگانے کاآغاز پشکان چیک پوسٹ سے کیا گیا ہے۔ جو مڑانی سے ہوتے ہوئے وشیں ڈور تک کوسٹل ہائی وے گوادر جیونی زیرو پوائنٹ تک مکمل کیا جائیگا،باڑ کی تعمیر کے کیلئے گوادرشہر میں داخلے کیلئے دو انٹری پوائنٹ قائم کیے جا رہے ہیں۔



تعلیم سے تبدیلی

| وقتِ اشاعت :  


تمام پڑھنے والوں کو سلال کے سلام کے ساتھ معزرت کہ ایک طویل عرصے بعد تحریر نویسی کررہا ہوں، کچھ تعلیمی و زاتی مصروفیات کے سبب ایک لمبا عرصہ قلم اور کاغذ سے دوری رہی اور اس دورانیے میں جن دوستوں نے مختلف محافل اور دیگر ذرائع سے وجوہات بھی پوچھیں ان سب کا تہہ دل سے شکریہ،چونکہ اس بار عنوان کچھ ایسا ہے تو سوچا کہ دیر نہ کروں کہ شاید کہ تحریر سے دل میں اتر جائے میری بات اور کسی کا بھلا ہوجائے،،تو آئیں سنتے ہیں ایک سچی کہانی، پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے ایک پڑھے لکھے گھرانے کی۔



گوادر چڑیا گھر بن رہا ہے

| وقتِ اشاعت :  


صوبہ بلوچستان دیگر صوبوں میں چھوٹا صوبہ سمجھا جاتا ہے جو کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہاں کی خوبصورتی یہاں کے تفریحی مقامات تمام تر علاقائی و دیگر صوبوں سے آئے لوگوں کو متوجہ کرنے اور تفریح کرانے میں مشغول رہتا ہے۔