*تاریخی چوکنڈی مقبرے*

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کئی اعتبار سے پاکستان کا نہایت منفرد صوبہ ہے۔یہ بلوچوں کا صوبہ ہے جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔ آثار قدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی ہوتی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات ملے ہیں۔ سکندر اعظم کے فتح سے قبل بلوچستان پر ایرانی سلطنت کی حکمرانی ہوتی تھی۔ اور ان کے اونٹ گھوڑے بہت مشہور تھے۔ بلوچ سرداروں کے گھوڑے دنیا بھر میں بہت مشہور تھے اور وہ اپنے گھوڑوں کو بہت عزیز رکھتے تھے۔



معصومیت کا قتل

| وقتِ اشاعت :  


وہ لاہور شہر کی گلیوں میں بھیک مانگتا تھا کسی نے کچھ مدد کی تو کسی نے دور دفع ہونے کو کہا لیکن اس کی معصومیت اس بات کی تمیز نہیں کر پاتی کہ اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں توکیوں نہیں۔اپنے ماں باپ کے لاڈ پیار سے بچپن میں ہی محروم ہوچکا تھا۔یہ غالباً 1890کا دورانیہ تھا جہاں حال ہی میں دوسری افغان اینگلو وار ختم ہوچکی تھی۔روس اور برطانیہ کے درمیانTHE GREAT GAME کی سیاسی جنگ چل رہی تھی۔لاہور شہر کے میوزیم(WONDER HOUSE)کے سامنے کھیلتے ہوئے اس کی نظر ایک تبتی بڈہسٹ پر پڑتی ہے۔



گوادر پنجرے میں

| وقتِ اشاعت :  


‘‘گوادر’’بلوچی زبان کے دو الفاظ ‘‘گوات اور دَر’’ سے بنا ہے، جس کے معنی ‘‘ہوا کا دروازہ’’ ہے۔ اب یہ ہوا کا دروازہ ہوا کے لئے بند ہورہا ہے۔ گوادر شہر کے گرد سیکورٹی کے نام پر باڑ لگانے کا آغازکردیا گیاہے،پشکان چیک پوسٹ سے لے کر کوسٹل ہائی وے ،گوادر، جیونی زیرو پوائنٹ تک شہر کو مکمل باڑلگا کر سیل کردیا جائیگا۔ باڑ لگانے کاآغاز پشکان چیک پوسٹ سے کیا گیا ہے۔ جو مڑانی سے ہوتے ہوئے وشیں ڈور تک کوسٹل ہائی وے گوادر جیونی زیرو پوائنٹ تک مکمل کیا جائیگا،باڑ کی تعمیر کے کیلئے گوادرشہر میں داخلے کیلئے دو انٹری پوائنٹ قائم کیے جا رہے ہیں۔



تعلیم سے تبدیلی

| وقتِ اشاعت :  


تمام پڑھنے والوں کو سلال کے سلام کے ساتھ معزرت کہ ایک طویل عرصے بعد تحریر نویسی کررہا ہوں، کچھ تعلیمی و زاتی مصروفیات کے سبب ایک لمبا عرصہ قلم اور کاغذ سے دوری رہی اور اس دورانیے میں جن دوستوں نے مختلف محافل اور دیگر ذرائع سے وجوہات بھی پوچھیں ان سب کا تہہ دل سے شکریہ،چونکہ اس بار عنوان کچھ ایسا ہے تو سوچا کہ دیر نہ کروں کہ شاید کہ تحریر سے دل میں اتر جائے میری بات اور کسی کا بھلا ہوجائے،،تو آئیں سنتے ہیں ایک سچی کہانی، پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے ایک پڑھے لکھے گھرانے کی۔



گوادر چڑیا گھر بن رہا ہے

| وقتِ اشاعت :  


صوبہ بلوچستان دیگر صوبوں میں چھوٹا صوبہ سمجھا جاتا ہے جو کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہاں کی خوبصورتی یہاں کے تفریحی مقامات تمام تر علاقائی و دیگر صوبوں سے آئے لوگوں کو متوجہ کرنے اور تفریح کرانے میں مشغول رہتا ہے۔



پاکستان اور بنگلا دیش

| وقتِ اشاعت :  


1971میں حالات کے جبر اور ہماری سنگین غلطیوں سے لگنے والے تاریخ کے زخم بھرنے اور جذبہ انتقام کے سرد ہونے کے لیے پچاس سال کا عرصہ کافی ہے۔ اس عہد کی تاریخ لکھنے کے حوالے سے پاکستان اور بنگلا دیش کے اپنے اپنے مسائل ضرور ہیں لیکن یہ تسلیم کرنے کا وقت آچکا ہے کہ ہمیں اب آگے بڑھنا ہوگا۔ 80 کی دہائی اور بعدازاں 21ویں صدی کے آغاز پر ہمارے تعلقات بہتری کی راہ پر تھے۔ اس حوالے سے حمو دالرحمان کمیشن رپورٹ کی اشاعت ان قربتوں کو بڑھانے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہوسکتی تھی۔



13دسمبر لاہور جلسہ،آر یا پار

| وقتِ اشاعت :  


حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا ملتان میں ہونے والا جلسہ حکومت کی مرہون منت یا اتفاقاً حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یادگار اور دلچسپ بن گیا تھا۔اگر حکومت آرام سے یہ جلسہ کرنے دیتی تو شاید یہ جلسہ گوجرنوالہ،کراچی،کوئٹہ اور پشاور میں ہونے والے جلسوں کی طرح ہو جاتا اور اتنی پذیرائی نہ ملتی۔اس جلسے کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں،ایک ہزار پولیس افراد کو تعینات کر کے اسٹیڈیم اور گھنٹہ گھر چوک کو سیل کر دیا گیا تھا،قاسم باغ کو تالے لگا کر بند کر دیا گیا تھا،موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی تھی۔



عزم سے عاری سیاست

| وقتِ اشاعت :  


دستیاب تاریخ میں بلوچستان کا جغرافیہ ہمیشہ مدوجزر کی زد میں رہا ہے لیکن پچھلے ستر برسوں میں یہ سرزمین تاریکی کے آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ یہ کارنامہ بھی انہی لوگوں نے انجام دئیے ہیں جو ہمیشہ خوشحال بلوچستان کے گن گاتے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لوگ جو دائمی طورپر بلوچ کی زندگی کو بدلنے کی راگ الاپتے رہے ہیں ماسوائے اپنے اور اپنی اولادوں کے جائیدادوں میں بے پناہ اضافے کے اور کچھ نہ کیا۔ بلوچستان میں کئی سیاسی پارٹیاں ہیں جو ہمیشہ وفاقی حکومت کے تابع رہی ہیں۔ وفاق میں جس کی حکومت آتی ہے۔



ماہی گیروں کا کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف احتجاج

| وقتِ اشاعت :  


فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) میں مسلسل بڑھتی ہوئی کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے ماہی گیروں میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ اس تشویش اور بے چینی نے ماہی گیروں کو سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور کردیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں ماہی گیروں نے کراچی بندرگاہ کو ملک سے ملانے والی مین شاہراہ نیٹی جیٹی پل کو کئی گھنٹے بلاک کیے رکھا۔اس احتجاجی دھرنے میں تمام ماہی گیر جماعتوں نے حصہ لیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسی طرح کی لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) کے دو سابق چیئرمینز گزشتہ دو سال سے اب تک نیب کے کیس میں جیل میں بند ہیں۔



ہفت دسمبر کے شہدا اور بلوچستان کی وحدانیت۔

| وقتِ اشاعت :  


بلوچ سرزمین کی وحدانیت کو پارہ پارہ کرنے کی سازشوں کا آغاز انگریز سامراج کے اس خطے میں قدم جمانے کے بعد شروع ہوا ۔ 1876 میں برطانوی راج نے مرحلہ وار بلوچستان کو تین حصوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا تھا مقربی حصہ ایران کے حوالے کردیا گیا جو اس وقت سیستان بلوچستان کے نام منسوب ہے، مشرقی حصہ جو اب پاکستان کا حصہ ہے اسے بھی برٹش بلوچستان جو ڈیرہ جات، جیکب آباد (خان گڑھ) کوئٹہ، نصیر آباد اور پشتون علاقوں پرمشتمل تھا اور قلات اسٹیٹ کے نام سے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا، قلات اسٹیٹ کو چار الگ الگ خودمختار ریاستوں مکران۔