کووڈ نائنٹین کے دور میں ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے، ایسے میں کچھ دنوں پہلے تاجر برادری نے حکومت کو جگانے کے لیے ہارن بجاؤ حکومت جگاؤ ریلی نکالی اور خوب رونے،دھونے کی ناکام کوشش کی، وہیں دوسری طرف اپوزیشن کا غیر فطری اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ محض موو کے سوا کچھ نہیں نظر آتی۔ ایسے وقت میں
بلوچستان کے وسیع وعریض ساحلی پٹی پر ایک طویل عرصہ سے مختلف قسم کے پروجیکٹس جاری ہیں، جیونی سے لیکر گڈانی و ڈام کے ساحل تک کیا سے ہورہاہے شاید ہماری نظروں سے اوجھل ہوں لیکن مستقبل قریب میں ہمارے لیے انتہائی بھیانک ثابت ہونگے۔گوادر جو سی پیک کا مرکز کہلاتا ہے وہاں کے باسی آج بھی ایک بوند پانی کیلئے،بجلی کیلئے اور اس صدی میں ایک جدید سہولیات سے لیس ہسپتال کیلئے ترس رہے ہیں وہاں کے باسیوں کو بجلی کی سہولت دینے،پینے کیلئے صاف پانی فراہم کرنے،اور جدید ہسپتال دینے کیلئے تو پیسہ نہ وفاق کے پاس ہے۔
حالات کب اور کیسے بدل جاتے ہیں ان ہی حالات کے کسی کو کوئی خبر یا الحام نہیں ہوتا تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ جو جس طرح کریگا اس کے ساتھ بھی وقت و حالات کے مطابق اسی طرح ہو سکتا ہے بلکہ ہر عمل اور کردار کا ایک ری ایکشن اور جوابی رد عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح 2018 ہی میں نواز شریف کے حکومت کے خلاف اس وقت کے اپوزیشن سمیت طاقتور طبقوں نے ایک مہم کا آغاز کیا اور مسلم لیگی حکومت کو مارچ سے قبل ہی ختم کرنا مقصود تھا کیونکہ مارچ میں ہی ایوان بالا سینٹ کے انتخابات منعقد ہو رہے تھے اسی وجہ سے اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ تھا کہ اگر سینٹ میں نواز شریف کو اکثریت مل گئی۔
کچھ رشتے کبھی ختم نہیں ہوتے، بلکہ وقت کیساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں، روزنامہ آزادی، روزنامہ بلوچستان ایکپریس اور ہفت روزہ ایکسپریس کے خالق مرحوم ماما صدیق بلوچ میرے استادوں میں ہیں، مجھے فخر ہے میں نے ایک عظیم اور خوددار صحافی سے رپورٹنگ اور ایڈیٹنگ کے مختلف شعبے سیکھے، ان کا ایک انوکھا انداز صحافت تھا اور انکی شخصیت کا دوستانہ انداز انہیں سب میں بہت منفرد کردیتا تھا، وہ ہر موضوع پر بہت گہری اور مختلف انداز میں نظر رکھتے تھے، وہ سوالات اس طرح کرتے تھے کہ جواب دینے والے کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا تھاکہ ماما صدیق بلوچ نے ان سے کیا بات نکلوالی ہے۔
مجھے آصف علی زرداری پر اعتبار نہیں ہے یہ کوئی اور نہیں خواجہ آصف کہہ رہے تھے،ٹائمنگ بہت اہم تھی ابھی تو اے پی سی کی قرار داد بھی تازہ ہے ابھی تو میاں نواز شریف کی دھواں دھار تقاریر جاری تھیں اور کون نہیں جانتا کہ خواجہ آصف ن لیگ کے اس گروپ میں نمبر ٹو کہے جاسکتے ہیں جس گروپ کے سربراہ میاں شہباز شریف ہیں کیا نیب دفتر سے یہ پیغام آیا تھا یا یہ پہلے طے تھا اور کیا اسکے بعد پاکستان پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا اہم جزو رہے گی یہ سارے سوال اپنی جگہ پر ہیں۔ آج بات کرتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی اے پی سی میں کیا چاہ رہی تھی کیا ہوا کیسے ہوا اور اب آگے کیا ہوگا؟
سیاسی جدو جہد سے حاصل ہونے والے ملک میں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دینے کی کوششوں کا آغاز ابتدائی ایام سے کردیا گیا تھا۔ سیاست کو عوام کے سامنے لوٹ مار، کرپشن، اقرباء پروری اور ہوس اقتدار کے طور پیش کیا جاتا رہا ہے۔ قائد اعظم محمدعلی جناح اور لیاقت علی خان کے بعداس ملک کو فلاحی ریاست کے بجائے ایک سیکیورٹی اسٹیٹ بنانے کی کوششوں کا آغاز کردیا گیا تھا جس کے لیے یہ ضروری تھا کہ سیاست اور سیاستدانوں کو عوام کے سامنے بے اعتبار اور بے توقیر بنا کر پیش کیا جائے۔ ہر دفعہ ملکی آئین کو توڑ کر مارشل لاء نافذ کرنے کے لیے عذر یہی پیش کیا جاتا تھا کہ ملک کو “سیکیورٹی خطرات” نے گھیر لیا ہے۔
عید قرباں سے قبل اے پی سی کا اعلان ہوا لیکن تاریخ نہ آئی،اسی اثناء میں میر حاصل خان بزنجو کینسر سے لڑتے لڑتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اسکے چند ہی دنوں بعد اپوزیشن کی اے پی سی کا اعلان ہوگیا۔میرحاصل خان بزنجو کی وفات اور سردار اختر مینگل کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے عدم شرکت کی اطلاع آنے کے بعد اے پی سی کی میرے لئے قومی سطح پر تو اہمیت کی حامل تھی لیکن بلوچستان کے حوالے سے کوئی خاص جوش نہ تھا لیکن اس موقع پر جو کچھ ہونا تھا جو کچھ ہوا وہ میرے اندازے میں نہیں تھا۔ میاں نواز شریف کی اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول ہونے کی خبر پر میرے کان کھڑے ہوگئے۔
“سید ضیاء عباس کو یاد نہیں رہا کہ یہ تینوں طالب علم لیڈر این ایس ایف کی قیادت (مجلس عاملہ) کے رکن تھے، ان کی ہی قیادت میں دو سالہ گریجویشن کی بحالی کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی۔ یہ تینوں لیڈر دو بار شہر بدر ہوئے۔ دوسری بار شہر بدر کیے جانے والوں میں، میں بھی شامل تھا۔ ہم سب این ایس ایف کے رکن اس وقت بھی تھے جب 1958 میں اس پر بطور“سیاسی تنظیم”پابندی عائد کی گئی اور اس وقت بھی جب مارشل لاء ختم کیا گیا اور سیاسی تنظیموں پر سے پابندی اٹھا لی گئی۔ سید ضیاء عباس یہ تو مانتے ہیں کہ انھوں نے این ایس ایف سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
کون حسین نقی؟ جب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھری عدالت میں چیخ کر یہ بات کہی تو عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چیف جسٹس کا انداز بڑا غیر مہذب اور طنزیہ تھا، یہ ممکن ہی نہیں کہ لاہور کے باشعور لوگوں جن میں وکلاء، جج صاحبان، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں، ان میں سے شاذ ہی ایسا کوئی فرد ہوگا جو حسین نقی کو نہ جانتا ہو۔ چیف جسٹس کی اس حرکت کو باشعور حلقوں اورخصوصاً صحافیوں نے سنجیدگی سے لیا، چیف صاحب کو لینے کے دینے پڑگئے۔ پاکستان کے بڑے پریس کلبوں میں حسین نقی کے اعزاز میں تقریبات منعقد ہوئیں۔
قزاق بحری ڈکیت کو کہتے ہیں جو سمندر میں لوٹ مار کرتے ہیں، وہ بحری جہازوں اور کشتیوں کو لوٹتے ہیں۔ قزاقوں کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سمندروں میں لوٹ مار کرنے کے بعد اپنی دولت جزیروں پر چھپاتے تھے۔ اور وہ جزیروں کو اپنی پناہ گاہوں کے طورپر بھی استعمال کرتے تھے۔ اب دنیا میں قزاقی کا پیشہ دم توڑگیا ہے ماسوائے صومالیہ میں کبھی کبھی ان کی سرگرمیوں کو خبریں آتی ہیں۔ لیکن آج کل پاکستان میں یہ قزاقی کا پیشہ سراٹھا رہا ہے۔ یہ قزاق سمندر کے بجائے خشکی میں رہتے ہیں۔ اور وہ سمندر سے گیارہ سو کلومیٹر دورکوہ مارگلہ کے دامن میں رہتے ہیں۔