وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جب سے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی ہے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ حکومت اوراپوزیشن نے اب تک درجنوں پریس کانفرنس ،مارچ اور جلسے کئے ہیں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ بھی زوروں پرہے۔ پی ٹی آئی کے اراکین سمیت حکومتی اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے اہم ملاقاتوں کے دوران کچھ لو، کچھ دو پر بات کی ہے جبکہ پنجاب میں بھی تبدیلی کے حوالے سے فیصلے کئے گئے ہیں۔
اسلام آباد ڈی چوک پر سیاسی دنگل یا محاذ آرائی ہونے جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک والے روز دس لاکھ کا مجمع اکٹھاکرنے کا اعلان کیاگیا ہے اور بتایاجارہا ہے کہ جشن منایاجائے گا تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے بعض ذمہ داران یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ووٹ کاسٹ کرنے والے اسی راستے سے ہی ووٹ کاسٹ کرکے آئے اور جائینگے۔ اب اس جملے کا کیا مطلب نکالاجائے ،کیا یہ جمہوریت کے برعکس نہیں ۔یہ بھی بالکل ٹھیک نہیں کہ اپوزیشن کی اپنی نجی ملیشیاء ارکان قومی اسمبلی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سیکیورٹی کے نام پر وہاں مامور رہے۔
ملک کو 70سال سے زائد کاعرصہ ہوگیا، مختلف حکومتیں بنیں اور چلی گئیں۔ بہت ہی کم حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی جبکہ وزرائے عظم میں سے تو بیشتر رخصت ہوتے رہے ہیں۔ 2008ء سے لیکر اب تک ایک تسلسل جمہوریت کا چل رہا ہے مگر اس دورانیہ میں بھی وزیراعظم تبدیل ہوئے ہیں گویا ایک تسلسل جو جمہوریت کی ہے اس میں اب تک بہت سی خامیاں موجود ہیں او ر اس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی آپس کے اختلافات اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے معاملا ت ہیں۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایک مخصوص گروپ اس سیاسی گہما گہمی میں اپنے مفادات کے تعاقب میں تاک لگائے بیٹھاہے کہ کس جانب پلڑا بھاری ہوگا وہاں اپناحصہ ڈال کر اپنے مفادات کو حاصل کرسکے۔ یہی مخصوص گروپ ہر حکمران جماعت میں اہم وزارتوں اور عہدوں پر دہائیوں سے دکھائی دے رہاہے ۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر قربتوں کی جہاں ضرورت حکومت کو پڑرہی ہے وہیں وزراء کے بیانات اتحادیوں کی دوری کا سبب بن رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کل تک تمام معاملات سیاسی حوالے سے اپنے خاص نمائندگان کو سونپ دیتے تھے مگر اب وہ خود بھی براہ راست اپنی جماعت کے اراکین اور اتحادیوں کے ساتھ ملاقات اور رابطے کررہے ہیں کیونکہ اس وقت نمبر گیم پورے کرنے اور اپنے ساتھیوں کو زیادہ خوش کرنے کی ضرورت ہے ناکہ ان کی دل آزاری کرکے اپنی پوزیشن کو مزید کمزور کیاجائے۔
ملک میں سیاسی معاملات کشیدگی کی طرف بڑھتے جارہے ہیں جبکہ وکٹوں کا گرنا اور وفاداریاں بھی تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں بظاہر حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر برتری کے بلند وبانگ دعوے کررہے ہیں مگر اصل حقائق سے خود بھی لاعلم ہیں کہ عین وقت پر کون کس طرف پلٹا مارے گا، دنگل کے سیاسی پہلوان ذاتی طور پر اب تک یہ طے نہیں کرپارہے کہ انہیں کس طرف جانا ہے ،سب کی نگاہیں ہوا کے رخ کی طرف ہیں مگر کھیل دلچسپ انداز میں جاری ہے۔ بہرحال وفاق کے بعد صوبوں میں بھی عدم اعتماد اور تبدیلی لانے کے حوالے سے سیاسی صف بندی شروع ہوچکی ہے کیا حکومت اور کیا اپوزیشن کیا خدشات کیا تحفظات نظریہ ضرورت یا مفادات موقف بدلتے بیانات یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اب بڑی سیاسی جنگ چھڑ چکی ہے بازیگر اپنی کاریگری میں لگ چکے ہیں۔
سیاسی پارہ ہائی ہوتا جارہا ہے اور بیان بازی میں شدت آرہی ہے، بڑے لیڈران ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلارہے ہیں اور یہی ہونا تھا کہ سیاسی محاذ آرائی ذاتی اور نجی زندگی کے معاملات اور گھر تک پہنچ جائے گی یہاں وہ سب کچھ بیان کرنا بھی غیر مناسب ہوگا کیونکہ صحافتی اقدار واصولوں کے تحت تنقید کے خدوخال کو مناسب انداز میں عوام تک پہنچایاجائے اور سیاست میں تنقید کی گنجائش موجود نہیں مگر اس میں اخلاقی اقدار جو سیاسی ،معاشرتی لحاظ کے مطابق ہو اور مہذب معاشرے کی بہتر ترجمانی کرسکے اس لیے یہاں پر صرف اس تنقید کو زیر بحث لایاجارہا ہے جو روایتی انداز میں سیاسی حوالے سے عموماََ ایک جماعت دوسرے پر کرتی آئی ہے۔ بہرحال اب سیاسی دنگل مکمل طور پر سج گیا ہے ہرپل ایک نئی سیاسی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے سیاسی جماعتیں وکٹ گرانے پر لگ گئے ہیں دونوںطرف سے اکثریت کے دعوے کئے جارہے ہیں۔
وقت کم اورمقابلہ سخت ہے، حکومت اوراپوزیشن نے ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے کمرکس لی ہے۔ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس نمبر گیم پورے ہیں، مفاہمت کے بادشاہ نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ عددی تعداد سے بڑھ کر بھی اراکین ہمارے ساتھ ہیں ان کے نام بھی لے سکتا ہوں۔ بہرحال انتہائی دلچسپ گیم اس وقت سیاسی حوالے سے چل رہا ہے اس تمام عمل میں اراکین قومی اسمبلی کی اہمیت بڑھ گئی ہے جنہیں پہلے نظرانداز کیاگیا اب ان سے بھی رابطے کئے جارہے ہیں ،جبکہ پنجاب کے اراکین اسمبلی اس پورے عمل میں اہم کھلاڑی کے طور پر میدان میں موجود ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی۔اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے بھی ریکوزیشن جمع کرا دی۔ ریکوزیشن قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے حکومت اوراپوزیشن حلقوں نے رابطوں میں تیزی پیدا کردی ہے اب تو وزیراعظم خود میدان میں اترے ہیں اور دو جلسے بھی کرچکے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت مارچ کے ساتھ ملاقاتیں بھی کررہے ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن میں پیپلزپارٹی کا مارچ پنجاب سے اسلام آباد کی طرف بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف پی ڈی ایم مختلف حکمت عملیوں پر بیک وقت کام کررہی ہے ۔سابق صدر آصف علی زرداری ذاتی طور پر ملاقاتوں اور رابطوں میں لگے ہوئے ہیں ۔
ملک میں ایک بارپھر دہشت گردی کی ہوا چل پڑی ہے جسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ کوئٹہ کے بعد پشاور میں دھماکہ ایک خطرناک صورتحال کی نشاندی کررہا ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اس سے قبل بھی کہہ چکے ہیں دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں جس میں ملک کے بڑے شہر سرفہرست ہیں ۔اس وقت ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر دہشتگردی کے حالیہ واقعات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس سے نمٹنے کیلئے مشترکہ پالیسی بنائیں اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس حوالے سے اہم بیٹھک لگائے تاکہ بروقت دہشتگردوں سے نمٹا جاسکے وگرنہ صورتحال مزید گھمبیر ہوجائے گی۔