ملک میں اس وقت سب سے خطرناک صورتحال قدرتی آفت کا ہے جو بارش اور سیلاب کی صورت میں سا منے آیا ہے مگر افسوس کہ اس انسانی بحران کے بدترین حالات کے باوجود بھی سیاست ہی کو فوقیت دی جارہی ہے حکومت واپوزیشن کی جانب سے ایک دوسرے پر بیانات، پریس کانفرنسز تو کئے جارہے ہیں ساتھ ہی بڑے جلسے بھی منعقد ہورہے ہیں اگرپریس کانفرنسز اور جلسوں کی رقم متاثرین پر خرچ کئے جائیں تو بہتر نہیں ہوگا افسوس کہ اقتدار کی رسہ کشی میں اس قدر آگے معاملات جارہے ہیں کہ جن سے ووٹ لیے جاتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال تک نہیں ۔ پی ٹی آئی جس کے پاس پنجاب، گلگت بلتستان، کے پی ، آزاد کشمیر موجود ہے اس کی تمام تر توانائی اس وقت سیاست پر لگی ہوئی ہے بڑے بڑے جلسے کئے جارہے ہیں۔
بارش برسانے والا ایک اور مضبوط سسٹم شمالی بلوچستان میں داخل ہو گیا ہے جبکہ ندی نالوں میں طغیانی، رابطہ سڑکیں بہہ جانے اور پل ٹوٹنے کے باعث بلوچستان کا ملک کے دیگر تمام صوبوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق بارشیں برسانے والا مضبوط سسٹم جنوب وسطی اور مغربی بلوچستان تک پھیل رہا ہے جس کے باعث چمن شہر کے نواحی علاقوں میں تیز ہواؤں کے ساتھ موسلادھار بارشیں ہو رہی ہیں۔چمن میں کئی علاقوں کے برساتی نالوں میں طغیانی کے باعث رابطہ سڑکیں بند ہیں، شہر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی متاثر ہیں۔
بلوچستان کے بعد سندھ میں بھی شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کی رپورٹس سامنے آ رہی ہیں۔مٹیاری کی کرار جھیل کا پانی بھٹ شاہ شہر میں داخل ہو گیا، سڑکوں اور گلیوں میں کئی کئی فٹ پانی جمع ہونے سے مٹیاری میں 400 سے زائد کچے مکانات گر گئے جب کہ متاثرین قومی شاہراہ پر جھونپڑیاں بناکر بیٹھ گئے۔پڈعیدن کی نصرت کینال میں پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہوگئی جبکہ خیرپور میں سیلابی ریلوں نے حفاظتی بندوں میں کٹاؤ ڈال دیا ہے اور شہر میں جگہ جگہ دو سے تین فٹ پانی جمع ہو گیا ہے۔
بلوچستان میں کئی روز سے جاری موسلادھار بارشوں اور سیلابی صورتحال نے ہر طرف تباہی مچادی ہے، سیلابی ریلوں میں بہہ کر دو معصوم بچوں سمیت 9 افراد جاں بحق اور 7 افراد لاپتہ ہوگئے،تاہم کراچی کوئٹہ شاہراہ 8 روز بعد عارضی طور پر بحال کردیا گیا ہے۔بلوچستان کے بیشتر بالائی علاقوں میں سیلابی صورتحال برقرار ہے، ہرنائی چاروں جانب سے سیلاب کے گھیرے میں ہے، پیر کی شام افغانستان سے آنے والے سیلابی ریلوں نے نوشکی، قلعہ عبداللہ اور چاغی میں تباہی مچا دی، نوشکی کے 7 دیہات ان سیلابی ریلوں میں ڈوب گئے، درجنوں مکانات کو نقصان پہنچایا۔چمن، پشین، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ میں سیلابی ریلے تیار پھلوں کے باغات اور کھڑی فصلیں اپنے ساتھ بہا لے گئے۔
کراچی کے این اے 245میں پی ٹی آئی کی جیت اور حکومتی اتحاد ی جماعت ایم کیوایم کی شکست کو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت ان کے رہنماء اپنے بیانیہ اور تبدیلی کو قرار دے رہے ہیں درحقیقت یہ مکمل زمینی حقائق کے برعکس ہے۔ کراچی ملک کا سب سے قدیم، سب سے بڑا اور ریونیو دینے والا شہر ہے اس کی آبادی بھی سب سے زیادہ ہے اور مسائل بھی بہت زیادہ ہیں یہ حلقہ ایم کیوایم پاکستان کا ہر وقت رہا ہے اور انہی کے امیدوار ہی یہاں سے منتخب ہوتے آئے ہیں 2018ء میں پی ٹی آئی نے پہلی بار یہاں سے کامیابی حاصل کی اور امیدوار بھی ایم کیوایم کے سابق رہنماء مرحوم عامر لیاقت حسین تھے اب دوسری بار بھی بازی پی ٹی آئی لے گئی ہے اس حلقے میں بہت زیادہ گھمبیر مسائل ہیں پی ٹی آئی نے خود اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں کراچی میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی جس پر یہ جتایا جائے کہ اسے کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ پڑے ہیں۔
بلوچستان میں تعلیم کامسئلہ دیرینہ ہے اسکولز ، کالجزاوریونیورسٹیز بہت سارے مسائل کا شکار ہیں جن کی بہتری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ تعلیم واحد ذریعہ ہے جس سے قوموں کی تقدیر بدلتی ہے اور وہ ترقی کے منازل طے کرتی ہیں بلوچستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں کی زبوں حالی ،مالی مشکلات جیسے اہم مسائل ہیں بلوچستان کے نوجوانوں کی بڑی تعداد صوبے سے باہر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں غریب والدین تمام تر مالی مسائل کے باوجود کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ بلوچستان میں یونیورسٹیز اور کالجز پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جس کے نتیجے میں اب بیشتر اسٹوڈنٹس اپنے صوبے کے اندر ہی تعلیم حاصل کررہے ہیں، اس سے ان کو مالی حوالے سے بہت سارے مسائل سے چھٹکارا مل چکا ہے مگر ابھی بھی ایک گھمبیر اور دیرینہ مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے وہ اسکولز ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کی پہلی سیڑھی اور بنیاد ہیں بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں اسکول خستہ حالی کا شکار ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے کہ شہباز گل کو پولیس کی حراست میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایاجارہا ہے، ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھاجارہا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین ،سابق وزیراعظم عمران خان نے یہاں تک الزام لگایا ہے کہ شہباز گل کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی گئی ہے، اس عمل کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کیاگیا۔ پمز اسپتال میں عمران خان شہباز گل سے ملاقات کے لیے پہنچے تو ان کی ملاقات نہیں کرائی گئی قانونی آرڈر لانے کی ان سے درخواست کی گئی۔
70سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ملک میں جمہوری نظام مضبوط ہونے کی بجائے کمزور دکھائی دے رہا ہے جس کی سب سے بڑی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ریڈلائن کراس کیا، اداروں کو آئین کا پابند کرنے کی بجائے اپنے ذاتی وگروہی مفادات پر لگادیئے، سیاسی انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا، من پسند قانون سازی کی گئی، نظام کی ایسی کی تیسی کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایسے انگنت مواقع سیاسی جماعتوں کو ملے کہ وہ پارلیمان کو مضبوط کرتے ہوئے میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت جیسے فارمولے پر چلتے اور سب کو آئین کا پابند کراتے اور خود اس پر ایمانداری سے عمل پیراہوتے۔
پاکستان میں زراعت واحد شعبہ ہے جس سے بڑے پیمانے پر لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور ساتھ ہی لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ایکسپورٹ میں معاشی حوالے سے کلیدی کردار ادا کرتا ہے اگر زراعت کے شعبے پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی جائے تو ملکی معاشی صورتحال میں بہتری آنے کے ساتھ عوام کو روزگار کے حوالے سے بہت سارے مواقع میسر آئینگے ۔حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے اگر سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو وہ زراعت کے شعبے کوہوا ہے جس کا ازالہ فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے ۔زرعی اجناس کی تباہی سے بہت ساری فیکٹریز کو نقصان پہنچا ہے اور یہاں تک نوبت آئی ہے کہ بعض فیکٹریز نے کام کرنا بند کردیا ہے ۔اس وقت سیلاب سے دوچار ملک کے بیشتر حصے میں زمیندار نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں اس میں بلوچستان سرفہرست ہے اس وقت سب سے زیادہ ترجیح ان متاثرین کی بحالی ہے جو بدترین مسائل سے دوچار ہیں ۔بہرحال وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے زراعت کے شعبے کی بہتری کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں ہنگامی بنیادوں پر زرعی اصلاحات کے نفاذ کا فیصلہ کر لیا ہے۔
سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی شہرت کرکٹ سے بنی ،پھر شوکت خانم اسپتال بنایااور ذاتی مراسم اس قدر بڑھے کہ وہ مقبول تر ہوتے گئے ،دیگر ممالک کی شخصیات کے ساتھ بھی اس کے اچھے تعلقات رہے ہیں جنہوں نے شوکت خانم اسپتال کی فنڈنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ عمران خان کی شہرت کا ایک پہلو ہے اور خاص کر نوجوانوں میں وہ مقبول ترین رہے اس طرح انہوں نے سیاست میں آنے کافیصلہ کیا ،پی ٹی آئی جماعت تشکیل دی اور جس طرح کا بیانیہ لے کر وہ آگے بڑھے ،ملک کے نامور سیاستدان سمیت دیگر شخصیات نے اس کا ساتھ دیا اور وہ عوام کے اندر بھی اپنے بیانیہ کے ذریعے مقبول رہے ۔