حالیہ چند ہفتوں میں عالمی سطح پر چین کی ساکھ متاثر کرنے کے لئے امریکی حکومت کے ساتھ انٹر نیشنل میڈیا جس طرح سر گرم ہوا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ عالمی میڈیا کی خبروں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین اپنا نام، مقام اور ایک ٹیکنالوجی سپر پاور کی حیثیت سے حاصل شدہ عزت و وقار سب بھول کر محض دنیا کو نقصان پہنچانے کے مشن پر کمر بستہ ہے۔ حالا نکہ اس سے سب سے زیادہ نقصان چین کا اپنا ہے۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی اس کی تجارتی سر گرمیاں اس وقت تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا مطالبہ کر تی ہیں اور چینی حکومت و کمپنیاں بار بار اس عہد کا اعادہ بھی کر چکی ہیں۔
میری پندرہ سالہ صحافتی زندگی کی خوش قسمتی کہہ لیں کہ صحافت کے میدان میں قدم رکھتے ہی جو افراد مجھے ملتے گئے انہوں نے مجھے اس مقام پر پہنچانے میں میری مدد اس حد تک کی کہ میں چاہ کر بھی کوشش کرکے بھی انکے کسی احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ اللہ ماما صدیق بلوچ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے،میری پرنٹ میڈیا کے دن تھے جب انکی رہنمائی ملی اور انہوں نے اویس توحید تک پہنچایا اور اویس توحید کے ذریعے وسیم احمد جیسا سینئر دوست ملا۔
مولانا سید میرک شاہ مرحوم 1912 میں ڑوب کے مضافات کلی اپوزہء میں مولوی سید نور محمد شاہ مرحوم کے گھر پیدا ہوئے،آپ کا تعلق افغانستان کے صوبے کنڑ کے سادات قبیلہ سے تھا،یہ سادات قبیلہ اپنے آبائی وطن سے ہجرت کے بعد اس بستی کے معتبرین کے شدید اصرار پر وہیں آباد ہوئے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول ڑوب سے حاصل کی،ابتداہی تعلیم کے بعد دینی علوم کے سلسلے میں ہندوستان کے شہر دیوبند چلے گئے،دیوبند میں مختلف فنون کی تحصیل کے بعد دورہ حدیث کی تکمیل جامعہ قاسمیہ شاہی مسجد مرادآباد یو پی انڈیا سے کیا۔
کبھی کبھی ایسے حالات وواقعات سننے یا دیکھنے کو ملتے ہیں کہ مروجہ اصطلاحات میں اضافہ کرکے نئی اصطلاح بنانی پڑتی ہے جیسے کہ ”انتہا پسندی کی انتہا“ اب یہ اصطلاح کس واقعہ کا حاصل ہے آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔کراچی کے علاقے لیاری میں واقع ڈی سی ٹی او کیمپس اسکول جو کرن فاؤنڈیشن نامی این جی او کی زیر نگرانی ایک مثالی تعلیمی ادارہ ہے اس ادارے کو مثالی بنانے کے پیچھے برسوں کی انتھک جدوجہد، انمول جذبات اور بیش بہا خلوص کے ساتھ ساتھ میڈم سبینہ کتھری شامل ہیں۔بلا مبالغہ یہ ادارہ تمام تر حوالوں سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
بلوچستان کاشمار وسائل کے اعتبار سے امیرترین اور مسائل کے اعتبار سے سب سے غریب صوبوں میں ہوتاہے،جہاں لاکھوں کی تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں دوسری جانب ہزاروں جعلی ڈومیسائل کے حامل افراد بلوچستان کے کوٹے پر بڑے بڑے پوسٹوں پر ملازمت کررہے ہیں، یہ تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان پرایوں کے علاوہ اپنوں کے برے سلوک و ستم کا شکار رہا ہے۔ مگر اس تناظر میں صریح زیادتی کا مرتکب وفاق اور وفاق کی طاقتور بیورو کریسی ہے، اب صوبے پر تسلط اور رسوخ کی ایک اور صورت بھی سامنے آچکی ہے۔
بلوچستان میں جام حکومت کا پہیہ جام کرنے کے لئے اپوزیشن جماعتیں سرگرم ہوگئیں۔ اس سلسلے میں تمام تیاریاں مکمل کی جارہی ہیں۔ سیاسی توڑ جوڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ایک طرف عیدالضحیٰ میں مویشی منڈیاں سج رہی ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سیاسی منڈیاں لگ رہی ہیں۔ ان سیاسی منڈیوں میں قربانی کے جانور نہیں ہونگے، بلکہ منڈی میں صرف ریس میں استعمال ہونے والے گھوڑے ہونگے۔ ان گھوڑوں کے دام لگنے جارہا ہے۔پاکستانی سیاستدانوں میں حرتحریک کا روحانی پیشوا پیر پگارا کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری گھوڑے پالنے کے شوقین ہیں۔
سیاسی جماعت، سیاسی گروہ بندی کا نام ہے جو کسی بھی خطے میں ریاست کی حکومت میں سیاسی طاقت کے حصول کے لیے تشکیل دی جاتی ہے۔ سیاسی جماعت کسی بھی ریاست میں انتخابی مہم،صحت عامہ کی سہولیات،عوامی کی فلاح و بہبود کی ترقی، بنیادی انفراسٹرکچر کے فروغ، تعلیمی اداروں میں فعالیت یا پھر عوامی احتجاجی مظاہروں کی مدد سے اپنی موجودگی اور سیاسی طاقت کا اظہار کرنا جماعتوں کے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اکثر اپنے نظریات، منصوبہ جات اور اپنے نقطہ نظر کو تحریری صورت میں عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں جو اس جماعت کا منشور کہلاتا ہے۔
فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) میں کرپشن،لوٹ مار،غیر قانونی بھرتیوں کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایف سی ایس میں مسلسل بڑھتی ہوئی کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے ماہی گیروں میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ملازمین کو بلاجواز ملازمت سے فارغ کیا گیا اوران کی جگہ من پسند لوگوں کی بھرتی کی گئی۔ اس سلسلے میں فشر مینز کوآپریٹیو سوسائٹی ایمپلائیز یونین نے اس کرپشن کے خلاف وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر کوآپریٹیو جام اکرام کو سوسائٹی میں ہونے والے کرپشن اور اقرباپروری سے متعلق دستاویزات پرمشتمل ثبوت دیئے ہیں۔
آج کل گوادر کا ایک حصہ چکاچوند روشنیوں کی وجہ سے دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں سورج غروب ہوتے ہی روشنیوں کا سفر شروع ہوتا ہے۔ یہ منظر دلفریب نظارے بھی ساتھ لے کر آتا ہے۔جب آپ جناح ایونیو روڈ کو نیوٹاؤن ہاؤسنگ اسکیم میں واقع مونومنٹ کے مغربی جانب کراس کر کے شہر کی طرف وارد ہونا شروع ہوں گے تو سامنے جنوب کی طرف کوہ ِباتیل کے بالکل سیدھ میں ایک دو رویہ سڑک شروع ہوتی ہے۔ یہ سڑک میرین ڈرائیو کہلاتی ہے۔میرین ڈرائیو شہر کے مغربی ساحل پر بنائی گئی ہے۔ اس سے پہلے ساحلی کنارے پر ایک پتلی سڑک بل کھاتی ہوئی گوادر بندرگاہ کی طرف جاتی تھی۔
1958ء والی ترکیب؟ نہیں! 1969؟ ارے نہیں صاحب! 1977؟ دوبارہ نہ کہنا! 1999؟سوچنا بھی نہیں! تو پھر؟ یہ میرے یکے بعد دیگرے چار پانچ سوال تھے۔ جو کچھ مجھے جواب میں سننے کو ملا ملاحظہ ہو: “ان کے پاس میرے سوا کوئی اور چوائس نہیں “. یہی میرے ان چند سوالوں کا جواب ہے. یہ جملہ چار پانچ دہائیاں قبل اس وقت کے وزیراعظم نے یوں ادا کیا تھا: “کرسی؟ اور پھر اس نے کرسی کے ہتھے پر زوردار مکہ مار کر کہا تھا: “میری کرسی مضبوط ہے”. پھر پہلے تو کرسی کا ہتھہ ٹوٹا پھر کرسی اپنے نئے کرسی نشین سمیت موضع ٹامیوالی، ضلع بہاولپور کے صحرا میں بکھر گئی: