بلوچستان کے ہسپتال، شفاخانے یا مقتل گاہ*

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں امن و امان اور تعلیم کے بعد صحت عامہ کیلئے خطیر رقم مختص کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں 32 اضلاع ہیں جہاں چھوٹے بڑے ہسپتال قائم ہیں اور پورے صوبے میں دو درجن سے زائد ڈی ایچ کیو ہسپتال ہیں جن کے بلڈنگ قائم ہیں ان میں یاتو ڈاکٹرز کی کمی ہے یا پھر ان میں ادویات نایاب ہیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹروں کی کمی اور علاج معالجہ ی بہترین سہولیات نہ ہونے کے باعث پورے ملک کی نسبت یہاں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں موذی اورخطرناک بیماریوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلوچستان میں جتنے بھی سرکاری ہسپتال قائم کیئے گئے ہیں۔



نماز عید الفطر کے دوران دل چیر دینے والی لمحات

| وقتِ اشاعت :  


عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کے لیے گھر سے روانہ ہوا۔ اپنی بساط کے مطابق نئے کپڑے وغیرہ پہن کر کوئٹہ شہر کے نامور مقرر مولانا کے اقتدا میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل کرنے نکلا۔ وہ مسجد اچھے خاصے صاحب ثروت لوگوں کے محلے میں واقع ہے۔ ساڑھے سات بجے نماز کا اعلان ہوچکا تھا۔سات بجے مسجد پہنچااور حسب روایت عیدالفطرکے پر مغز تقریر کے انتظارمیں تھالیکن مولانا صاحب مسجد میں موجود نہیں تھے۔ آس پاس لوگوں سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے احتیاطی تدابیر کے طور پر اس مرتبہ تقریر نہیں ہوگی۔خطبہ دو رکعت نماز اور مختصر دعا ہوگی۔



یہ قسمت کی خوبی نہیں

| وقتِ اشاعت :  


یہ زندگی کی پہلی عید گزری جو گزشتہ تمام عیدوں سے مختلف تھی اور ایسے موقع پر آئی جب دنیا کورونا جیسی عفریت سے نبردآزما ہے۔جس نے پورے نظام زندگی کو ہیچ کر دیا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی تہوار اس جذبے سے نہیں منایا جا رہا جس طرح عام زندگی میں منایا جاتا تھا۔دنیااب اسی کوشش میں ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح نظام زندگی کو معمول پر لائے۔کبھی کبھی مثبت اشارے بھی ملتے ہیں کبھی کبھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ کورونا کم بخت کبھی معدوم نہیں ہونے والا لہذا اس کے ساتھ رہنا سیکھیں۔ ابھی میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ کب کورونا سے نجات پائیں گے اور کب زندگی معمول پر آئے گی۔



ایک اور فضائی حادثہ۔۔

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن (پی آئی اے) کا ایک اور مسافر بردار طیارہ 22 مئی کو کراچی کے گنجان آباد علاقے ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اس تازہ حادثے میں 97 افراد جاں بحق ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح اس حادثے کی بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور ہمیشہ کی طرح ان تحقیقات سے بھی کوئی غیر معمولی نتائج اخذ نہیں کیے جاسکیں گے اور آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے نئے وعدے اور دعوے کرکے پھر سب ہی خاموش بیٹھ جائیں گے۔ نئے کسی سانحے تک قوم بھی اس واقعہ کو بھلا دے گی۔پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں 83 ائر کرافٹ حادثات رونما ہوچکے ہیں۔ ان میں پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کے طیاروں کو 21 حادثات پیش آئے ہیں تاہم پاکستان ائر فورس کے طیاروں کو مجموعی طور پر 24 حادثے پیش آئے ہیں۔



کرونا دنیا کیلئے عذاب اور زحمت جبکہ بلوچستان کیلئے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوا*

| وقتِ اشاعت :  


کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق لاکھوں افراد کورونا وائرس سے ہلاک اور متاثر ہوئے ہیں کورونا وائرس نے ترقی یافتہ دنیا کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے کورونا وائرس سب سے زیادہ یورپ اور امریکہ کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے اور اس خطرناک وائرس کی بدولت عالمی دنیا اور اسٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں۔ عالمی معیشت بھی ہچکولے کھا رہی ہے وہاں ترقی پذیر ممالک بھی شدید متاثر ہوئے ہیں اور مزید ہوتے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی لاک ڈاؤن فارمولے نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کورونا وائرس سے لاک ڈاؤن کے باعث جہاں کورونا کو کنٹرول کرنے کا فارمولا سمجھا جا رہا تھا اسی لاک ڈاؤن سے غربت کی شرح میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔



عید کی خوشیاں اور غریب کی حسرت بھری نگاہیں

| وقتِ اشاعت :  


یہاں تک کہ سرکار دوعالم نے اس بچے کو اپنے ساتھ ممبر پر بٹھایا اور فرمایا جو شخص یتیم کی کفالت کرے گااور محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پیرے گا،اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا۔ہمیں بھی نبی کریم کی پیروی کرتے ہوئے عید کے موقع پر اپنے ارد گرد بسنے والے غریب،یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہئے تاکہ ان کی بھی عید ہوجائے اور ہمیں کل روزقیامت آپکے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔عید سب کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے لیکن پاکستان کے غریب طبقے کے لئے ”خودکشیوں ”کا پیغام ہوتا ہے۔مہنگائی نے غریبوں کے علاوہ سفید پوش یعنی مڈل کلاس طبقے کو بھی متاثر کردیا ہے اب عید کی شاپنگ متوسط طبقے کی دسترس سے بھی باہر ہوگئی ہے تو وہاں نچلے طبقے کے غریب کی حالت کیسی ہوگی۔



عید کی خوشیاں اور غریب کی حسرت بھری نگاہیں۔

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہزاروں تنظیمیں غربت کے خاتمے کے نام پر عیاشیوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور غریب کے نحیف جسم پر پاؤں رکھ کر اپنی معاشی زندگی کے محل تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ آج سے کئی سال قبل کی رپوٹ ہے حکومت پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پہلے ملک میں آبادی کے لحاظ سے ہر 10 میں سے ایک شخص غریب تھا اور اب یہ تعداد بڑھ کر 3 ہو چکی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی اور مالیات کی جانب سے بین الاقوامی ترقیاتی اداروں کی موجودگی میں تیار کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد میں ایک دم حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔



قومی شاہراہ چمن ٹو کراچی کروناسے بھی خطرناک ہے۔

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان ایک ایساخطہ ہے جس کو قدرت نے اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس دھرتی کو خالق کائنات نے سونے چاندی سے بھردیا ہے۔ ان کی بلند پہاڑوں سے لیکر ساحل تک،صحراؤں سے لیکر وادیوں تک سب میں قدرت نے اپنے خزانے بھردئیے ہیں۔بلوچستان کے پہاڑوں، وادیوں اور صحراؤں سے نکلنے والاہر ذرہ، ہر پتھر، ہر پھل اپنی ایک الگ قیمت رکھتا ہے۔ سندک، کرومائیٹ، ریکوڈیک، سنگ مرمر اور دیگر قیمتی ماربل پتھریں بھی پورے پاکستان میں اس ذرخیز خطہ کی مرہون منت ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس دھرتی کے اپنے باسی خود فاقہ کشی پر مجبور ہیں بلوچستان کے لوگ اپنے ساحل وسائل کے مالک بھی نہیں ہیں۔ پورے ملک کو تمام قدرتی وسائل ایکسپورٹ کرنے والے صوبے کے لوگ خود پانی اور ایک سڑک کیلیے ترس رہے ہیں۔



اوراب بھارت کی نشریاتی جارحیت!

| وقتِ اشاعت :  


ویسے تو بھارت 1947ء؁ میں تقسیم برصغیر کے فوراًبعد سے پاکستان کے خلاف صوتی محاذ پر سرگرم رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ اپنے الیکٹرانک میڈیا نیٹ ورک کا وسیع جال بچھایا ہے لیکن وزیراعظم نریندرا مودی کی پہلی میعاد کے اواخر میں بھارت نے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ تیز کردیا تھا جسے انتخابات جیتنے کا ہتھکنڈہ سمجھ کر پاکستان میں نظر انداز کر دیاگیا۔ تاہم دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد وزیراعظم مودی نے اپنے بدنام زمانہ”ہندتوا“ ایجنڈے کو پروان چڑھاتے ہوئے جہاں بالاکوٹ میں جارحیت کا ارتکاب کیا وہیں انہوں نے سفارتی و نشریاتی محاذوں کو پاکستان کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال کرنا شروع کردیا۔



آن لائن ذریعہ تعلیم کے فوائد۔

| وقتِ اشاعت :  


پرانے زمانے میں انسان تعلیم کے حصول کے لیے بہت محنت و مشقت کرتے تھے اس زمانے میں حصول تعلیم میں بہت اسباب مانع تھے۔ جیسے تعلیمی اداروں کی قلت، اساتذہ کی عدم موجودگی، زیادہ غربت اور ذرائع سفر کی عدم دستیابی شامل تھی۔ان ساری رکاوٹوں کے باوجود قدیم زمانے میں متقدمین علماء اور سائنسدانوں نے امت کے لیے بہت کارنامے سرانجام دیئے۔جو آج ہم ان کو بطور فخر یاد کرتے ہیں۔موجودہ ترقی ان قدیم علماء،فلاسفر اور سائنسدانوں کی مرہون منت ہے جو ہمیں ان سے وراثت میں ملی ہے۔ انہوں نے شب و روز محنت کرکے امت کے لیے احادیث، فقہ، سیرت، تفسیر، تاریخ، سائنس اور فلسفہ مدون کیے۔ ان میں چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔