جب ہم ساری دنیا پر نظر جمائیں تو دنیا میں جتنے مسلم ممالک ہیں جیسے فلسطین،شام،عراق، لبیا،یمن، افعانستان،ایران پاکستان اور کشمیر سب کے سب پریشانی،دکھ اورالم میں ہیں۔ ان میں مختلف قسم کی جنگ وجدال اور دہشت گردی کے نام سے فسادت جاری ہیں۔ مسلمان ہی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں۔ بہت افراد خود کش دھماکوں کی زد میں آکر بغیر کوئی گناہ شہید ہوگئے جن کی وجہ سے مختلف ممالک میں مختلف نام سے فوجی آپریشنز ہو رہے ہیں۔کئی افراد نے اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرکے دوسرے علاقوں کو منتقل ہوگئے ہیں جو وہاں پر مختاجی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
کورونا وائرس جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، وہی پاکستان میں بھی تیزی کے ساتھ پھیل رہاہے،پوری ملک میں عجیب سی کیفیت ہے،ڈر و خوف ہے،جس کے باعث گلیاں،کوچے اور بستیاں ویران ہیں۔انسان کو انسانوں سے خطرہ لاحق ہے۔ اسطرح کوئی کسی خونی بلا سے نہیں بھاگتا جیسے انسان کرونا وائرس کے مریض سے بھاگ رہا ہے۔جن لوگوں کی اس وائرس سے اموات ہو رہی ہیں نہ توکوئی ان کے جنازے کو ہاتھ لگا سکتا ہے اور نہ ہی تدفین کے لئے جا سکتا ہے۔
شہید میرزادہ محمد سیلم پہنور پاکستان کے مشہور قبیلہ پہنور سے تعلق رکھتے تھے انیس جنوری 1991سیاسی وسماجی اور قبائلی شخصیت حاجی میرہزاہ خان پہنور کے گھر میں آنکھ کھولی والد نے اس کا نام میرزادہ سیلم خان پہنور رکھا غریب نوجوان طالب علموں اور پہنور اقوام بلوچستان کی امیدوں آرزدوں ان کی خوابوں کی تعبیر کا مرکز بنا حاجی میرہزار خان پہنور نے خصوصی توجہ مرکوز شہید میرزادہ محمدسیلم خان پہنور خودبھی ذہین خوش اخلاق مخلص سخی تھا اور بلوچستان ایک اہم تعلیمی ادارے گور نمنٹ سنڈیمن ہائی اسکول کوئٹہ سے اعزازی نمبروں سے پاس کیا۔
یاد رہے کہ چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی وائرس دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا چین کے شہر ووہان میں کارونا وائرس کے اب تک 82/933 کیسسز سامنے آئے جن میں سے 78/209 افراد صحتیاب ہوئے جبکہ 4/633 افراد اس مرض سے ہلاک ہوئے، جس تیزی سے یہ مریض پھیلا اور چین کی گورنمنٹ، ڈاکٹرز، نرس اور پولیس نے جس طرح سے اس مرض کا مقابلہ کیا اور ایک ماہ میں پورے ملک میں کارونا وائرس پہ قابو پالیا اور لاک ڈاؤن ختم کر دیا تاہم یاد رہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے باوجود بھی چین کے شہری احتیاطی تدابیر پر عمل بھی کرتے رہا اور آج چین باقاعدہ دوبارہ سے اپنے کاروباری مراکز کو کھول دیا۔ لیکن بات آتی ہے پاکستان کی جہاں گورنمنٹ نے کارونا وائرس کو سیریس نہ لیا اور افغان،ایران بارڈر کھول دیا۔
آج سے 18 سال قبل جب اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے گوادر پورٹ کے افتتاح کے بعد افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ گوادر میں انجینئرنگ اور میرین یونیورسٹی بنائی جائے گی جس سے گوادر کے لوگ تکنیکی اور سمندری علوم حاصل کرکے گوادر کی ترقی میں براہ راست شراکت دار ہوں گے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا، پرویز مشرف کو جمہوری قوتوں نے ہٹایا، یا ڈیل کے تحت وہ خود اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دور کا آغاز ہوا تو زرداری حکومت نے آغاز حقوق بلوچستان نامی پیکیج کے تحت بلوچستان کی محکومیوں اور محرومیوں کا ازالہ کرنے کا عندیہ دیا اور بلوچستان پیکیج کے نام پر پانچ ہزار لوگوں کو محکمہ تعلیم میں عارضی بنیادوں پر ایڈجسٹ کیا گیا۔
“ہم نرس اس وقت ایک بارڈر پر کھڑے جنگ لڑ رہے ہیں، زندگی اور موت کے درمیان کی جنگ؛ کیوں کہ ہم خود غیر محفوظ ہیں اور آنے والے مریضوں کی خدمت ہمارا فرض ہے، جسے ہم اپنی پوری کوشش سے نبھا رہے ہوتے ہیں۔”حرا بارکزئی، کا تعلق کراچی شہر کے علاقے لیاری سے ہے۔ وہ اس وقت ساؤتھ سٹی ہسپتال، کلفٹن میں بطورِ نرس کام کر رہی ہے۔ ان کے مطابق اب تک ساؤتھ سٹی ہسپتال میں کرونا کے مریضوں سے ان کا واسطہ نہیں پڑا ہے جبکہ ہسپتال میں quarantine شروع سے بنا دیا گیا ہے اور ان کی ڈیوٹی بھی مستقل وہاں لگائی جا رہی ہے۔ وہ سندھ حکومت کے اقدامات سے خوش نہیں ہیں، کیونکہ ان کے مطابق وفاقی حکومت کے 12 ہزار نہ تو پورے کنبہ کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی سندھ حکومت نے ان کے علاقے کے عوام کے لیے ایسا کچھ کیا ہے کہ لوگ وبا میں مطمئن ہو کر گھروں میں بیٹھ سکیں۔
میڈیا ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے۔ میڈیا کا آج کے دور میں انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔ میڈیا کا کام لوگوں کو باخبر رکھنا ہے۔ میڈیا کا اہم مقصد لوگوں تک بروقت تازہ ترین معلومات پہچانا ہے۔ میڈیا سے منسلک لوگ صحافی کہلاتے ہیں، جو مختلف خبریں اکھٹی کرتے ہیں۔ وہ خبریں سیاست،معیشت، حالات حاضرہ، کھیل اور اندورنی اور بیرونی معاملات کی ہوتی ہیں۔میڈیا کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا الیکٹرونک میڈیا ہے۔ ٹیلیویژن اور ریڈیو اس کی مثالیں ہیں۔ سیٹلائٹ کا الیکٹرونک میڈیا اہم کردار ہوتا ہے۔جبکہ دوسری قسم پرنٹ میڈیا ہے۔ کتابیں، میگزین اور اخبارات پرنٹ میڈیا کی مثالیں ہیں۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کم وقت میں بڑی تیزی کے ساتھ مقبول ہوا۔
آن لائن ایجوکیشن سسٹم نے اسٹوڈنٹس کو ذہنی کوفت میں مبتلا کردیا ہے۔ ایک طرف کورونا کا خوف، دوسری طرف آن لائن ایجوکیشن نے زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ نہ کوئی سہولیات ہے اورنہ وسائل۔پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا مثبت کیس 26 فروری، 2020 کو رپورٹ ہوا۔جس کے بعد آہستہ آہستہ پہلے سندھ پھر پورے ملک میں یہ وائرس پھیلا۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر اسد عمر خان نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کی ویکسین کب تیار ہوگی اور یہ کب ختم ہوگا کچھ نہیں کہہ سکتے، اس لئے اب حکومت نے ایس او پی کے تحت کاروبار زندگی مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شعبہ غیر معینہ مدت کے لیے بند نہیں کرسکتے۔
آزادی ِ صحافت، سب سے بڑی جنگ، احفاظ الرحمن/ اقبال خورشید: سال پہ سال گزرتے رہے ایک تاریخی جنگ، پاکستان کی صحافیوں کی سب بڑی جنگ، کی یادیں ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ تمہیں لکھنا ہے، دوستوں کا حلقہ اصرار کرتا رہا۔ ارادہ ٹوٹتا رہا۔ وقت ٹلتا رہا۔ میں خود برنا صاحب سے درخواست کرتا رہا۔ وہ بھی وعدہ کرتے رہے، وقت ٹلتا رہا۔ اب وہ نہیں رہے جو اس تحریک کے معمار تھے۔