علامہ صاحب،فیسبکی نوجوان اور میڈیکل سائنس کی تکرار

| وقتِ اشاعت :  


یہ تو ہمارے فیس بکی نوجوانوں کی خارج العقلی ہے کہ وہ ہمہ وقت علامہ صاحب کی باتوں کا ٹھٹھا کرتے ہیں لیکن ایک اور طبقہ ہے جو علامہ صاحب کو مشاہیر علم ودانش گردانتا ہے۔ان کو علامہ کی فہم و فراست سے کوئی مفر نہیں کیونکہ علامہ صاحب اپنی دا نشوری سے دقیق سے دقیق مسائل کا حل ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اب یہ ان کی کوتاہ نظری ہے کاہلی ہے کہ وہ اس پر عمل نہیں کرتے۔علامہ صاحب گفتار کے دھنی ہیں۔ علامہ کو باتیں جھاڑتے وقت دنیا کے کسی بھی مشاہیر علم ودانش سے خوف نہیں ہوتا لیکن انھیں فیس بکی نوجوانوں کا خوف طاری ہوتا ہے کہ میری اس اہم بات کا پھر کل سوشل میڈیا پہ مذاق نہ بنایا جائے۔وہ بعض اوقات طیش میں آکر ان نوجوانوں کو ایسے ایسے استعارات سے جوڑتے ہیں مگر نوجوانوں کا اس پر کیااثر ہونا! یہ فیسبکی نوجوان کہاں سدھرنے والے ہیں۔



کورونا وائرس نے بلوچستان میں صحت عامہ کی سہولیات کا پول کھول دیا

| وقتِ اشاعت :  


کورونا وائرس نے تمام ترقیافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں صحت عامہ کی سہولیات اور اقدامات کا پول کھول دیا۔ بلاشبہ کورونا وائرس ایک خطرناک وباء کی صورت میں دنیا بھر میں متعارف ہوئی۔دنیا کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ممالک بھی کورونا وائرس کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور ثابت ہوئے ہیں پاکستان ایٹمی ممالک کی صف میں شامل ہے لیکن کورونا وائرس نے پاکستانی قوم کو ایک بہترین سبق دے دیا کہ بیماریوں اور وباء کے مقابلے کیلئے جدید لیبارٹیرز، ادوایات اور وینٹی لیٹرز کی جو ضرورت ہوتی ہے وہاں ایٹم بم اور میزائل کسی کام کے بھی نہیں ہوتے۔



ہمارے سیاست دانوں کی ترجیح تعلیم کیوں نہیں؟

| وقتِ اشاعت :  


نوجوان اپنے مستقبل کو سنوارنے کی خاطر دن رات بھاگ دوڑ کرتے ہیں تاکہ ہم اپنے کل کو ایک اچھے اور خوبصورت موڑ پر پہنچانے میں کامیاب ہوسکیں۔ ہمیں اس بات کا علم ہوتے ہوئے بھی کہ ایک اچھے اور روشن مستقبل کی خاطر تعلیم حاصل کرنا بیحد ضروری ہے، اور اس سر زمین پر انسان کے لئے ایک تابناک مستقبل اچھے تعلیم پر منحصر ہے۔ یہ کس قدر بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے سردار،نواب، سیاست دان اور منتخب نمائندے اس بات کو جانتے ہوئے بھی اسے عملی جامہ کیوں نہیں پہناتے، کہ ترقی کا دارومدار تعلیم پر ہے۔ اور جو بنیادی تعلیمی سہولیات ہمارے سکولوں میں ہونے چاہئیں۔



کورونا کے خلاف جنگ،وزیراعلی بلوچستان کا وژن

| وقتِ اشاعت :  


کرونا وائرس C0VID-19دنیابھرمیں تباہی پھیلا رہا ہے اس سے کوئی ملک و علاقہ محفوظ نہیں رہا پاکستان بھی فروری کے آخری ہفتے میں م اس کی زد میں آگیا شروع میں اس کے پھیلاؤ کا باعث وہ افراد تھے جو بلوچستان کے بارڈر تفتان کے راستے پاکستان پہنچ رہے تھے اس کے علاوہ بیرون ممالک سے آنے والوں میں بھی اکثریت اس وائرس کو پاکستان لانے کا باعث بن رہے تھے اس عفریت کا سب سے سے پہلے سامنا بلوچستان کو کرنا پڑا بلوچستان حکومت نے تفتان بارڈر پر قرنطینہ سینٹرز ز قائم کئے اور بعد ازاں ان افراد کو بسوں کے ذریعے ان علاقوں میں پہنچایایاد رہے کہ ان میں سے اکثریت ملک کے دیگر صوبوں سے تھی جب ملک بھر میں وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آنا شروع ہوئی تو ملک میں لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات کا آغاز ہوا۔



مصیبت کی گھڑی میں حکومتی خدمت

| وقتِ اشاعت :  


مددوہ جو مصیبت کی گھڑی میں کی جائے آج جہاں کورونا وائرس نے پوری دنیا کواپنے لپیٹ میں لے لیا ہے تووہاں اس کے تدارک کیلئے دنیا بھر کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصورہوکررہ گئے ہیں پاکستان میں بھی آج مختلف کونوں حصوں سے کورونا وائرس پھیل رہا ہے موجودہ حکومت نے عوام کی زندگیوں کومحفوظ رکھنے کیلئے ملک بھرمیں لاک ڈاؤن کردیا تاکہ کسی بھی جانی المیہ سے بچاجاسکے ایسے حالات میں جہاں لوگ اپنے گھروں میں قید وبند ہوگئے اس تناظر میں عوام کو سخت معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑرہاتھا ایسے مشکل اورکٹھن حالات میں موجودہ عوامی حکومت نے عوام کی بھرپوراندازمیں مددکرنے کا تہہ کرلیا۔



خلافت عثمانیہ کا عروج و زوال۔

| وقتِ اشاعت :  


1922ء خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور جنگ عظیم اول کے بعد ترکوں کے ساتھ زبردستی کا سو سالہ معاہدہ 2023کو ختم ہورہا ہے جو کہ خوش آئند ہے اور اس سے پہلے ہی ترک نے اپنی کھوئی ہوئی شاندار تاریخ کو ڈرامے کی شکل میں پیش کرکے نا صرف اپنی بھٹکی ہوئی قوم کو جگانے کی کوشش کی ہے بلکہ عالم اسلام کے علاوہ بھی اس شاندار تاریخ پر بنے ڈرامے نے پوری دنیا میں ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے جس میں خلافت عثمانیہ کے عروج سے خاتمے تک تمام پہلوؤں کو بڑی خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اور کتنی قربانیوں کے بعد اللہ کی مدد سے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد پڑی۔



بلوچستان کا عظیم منصوبہ کچھی کینال، وفاق کی عدم توجہی اور بلوچستان کے سیاسی قیادت کی چشم پوشی*

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کو وفاق کی جانب سے ہمیشہ اور ہر دور میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی صوبہ پر وفاق کی وہ توجہ نہیں جس طرح باقی صوبوں پر دی جا رہی ہے۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں اب بھی انسان اور حیوان ایک ہی تالاب، جوھڑ، گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ اگر اس کو اس طرح کہا جائے کہ جدید دور میں بھی بلوچستانی عوام اور حیوان جہاں ایک ہی طرح کے تالاب سے اکٹھے پانی پیتے ہوں اور ان حیوانوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں وہاں صوبے میں صاف پانی کا حصول انتہائی جان جوکھوں کا ہے۔



کرونا، غربت،شعورکی کمی اور بلوچستان

| وقتِ اشاعت :  


چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والی وبا ء کرونا پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔دنیا کا ہر ملک تقریباً اس وبا سے متاثر ہوا۔پوری دنیا میں اس وقت 37 لاکھ قریب لوگ اس بیماری کا شکار ہوچکے ہیں اور 2 لاکھ 32ہزار لوگ اس وبا ء سے ہلاک ہوگئے۔ترقی یافتہ ممالک میں اس وبا میں اموات کی تعداد زیادہ ہے جو حیران کن بات ہے۔اب تک اس وباء سے اٹلی میں 29 ہزار سے زائد، اسپین میں 25 ہزار کے قریب، برطانیہ میں 29 لوگوں کے لگ بھگ، امریکہ میں 72 ہزار، ایران میں تقریباً 6 ہزار اور چین میں 4 ہزار 6 سو ہلاکتیں ریکارڈ ہوچکی ہیں۔



ٹڈی دل سے بلوچستان میں نقصانات

| وقتِ اشاعت :  


یو ہ سیٹی بجا رہا تھا ٹڈی دل کو اپنی فصل سے دور بھگانے کی ناکام کوشش کررہا تھا تاکہ ٹڈی دل اسکی فصلوں کو کم سے کم نقصان پہنچاسکے اس کے گھر کا سارا دارو مدار زمینداری پر ہے اشرف بلوچستان کے ضلع ہرنائی کے علاقے کھوسٹ کے رہائشی ہے اور وہ زمینداری کے پیشے سے منسلک ہے اشرف اپنی زمینوں پر گند م لہسن اور پیاز کی کاشت کرتے ہے اشرف نے بتایا” ٹڈی دل نے تین مرتبہ میری فصل کو نقصان پہنچایا ہے جب ٹڈی دل نے فصل پر حملہ کیا تو میں نے چھوٹے بچوں کی مدد سے ٹڈی دل کو بھگانے کی کوشش کی تاہم حکومت کی جانب سے ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی ”ضلع سبی کے رہائشی زمیندار امان اللہ کی تمام جمع پونجی ختم ہوچکی ہے۔



احساس پروگرام

| وقتِ اشاعت :  


ہم اپنے گھر میں بڑے بھائی اور بچوں کے ساتھ کورونا وائرس اور احساس پروگرام کے مطابق گفتگو کررہے تھے تو بھائی نے مجھے کہہ دیا کہ احساس پروگرام میں موجود مشکلات و مسائل عیاں کرنے کے لیے ایک کالم تحریر کریں تاکہ حکومت اس پر نظر ثانی کرے۔ اس ملک میں عوام غربت و مسائل کی وجہ سے تنگ آچکے ہیں اور لوگ روز بروز خودکشیاں، قتل وغارت،چوری وڈکیتی اور اخلاقی برائیوں کی طرف جا رہے ہیں۔