نوول کورونا وائرس(کوویڈ-19) نے عالمی وبا کی شکل اختیار کر لیا ہے جس نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا تقریبا 40 دن کے قلیل مدت میں کرونا وائرس نے 202 سے زائد ممالک کو متاثر کیا ہے اور اب تک 19 لاکھ سے زائد افراد اس وبائی مرض کا شکار ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ 28 ہزار سے زائد افراد دنیا بھر سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور یہ مرض تیزی سے پھیلتا ہی جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں 6000 کے ہزار قریب افراد اس مرض سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ150 قریب افراد زندگی کی بازی ہار گئے 1500 کے قریب صحت یاب ہوگئے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008 میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بنیاد رکھی جسکا مقصد غریب طبقے کی مالی مدد کرناتھا۔ پہلے تو 1000 روپے رکھے گئے جسے جولائی 2013 میں بڑھا کر 1200 روپے کیا گیا،اسکے بعد جولائی 2014 میں بڑھاکر 1500 اور جولائی 2015 میں 1566 کیا گیا جسے سہ ماہی Card Debit BISPکے ذریعہ مہیا کیا گیا۔ ATM سسٹم سے منسلک اس پروگرام سے پیسے نکالنے میں کافی آسانی تھی مگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے BISP کو باہیو میٹرک سسٹم میں رکھا اور یوں فرنچائز والوں کو حکومت کی طرف اجازت مل گئی۔
دُنیا کے مختلف ممالک اپنے دستایب وسائل اور حکمت عملی کے تحت کرونا وائرس کا مقابلہ کررہے ہیں۔ چین جہاں سے اس وباء نے جنم لیا اس کے صوبے ہو بئی کے شہرووہان کو بری طرح متاثر کیا۔وہاں چائنا نے بہت جلد وائرس کو پھلنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے پرکافی حد تک قابو بھی پالیا۔اس کے علاوہ وہ ممالک جہاں بہترین انتظامات کئے گئے احتیاطی تدابیر و اقدامات کے علاوہ ٹیسٹنگ کو اولیت دی اور عوام نے کئی ماہ تک لاک ڈاون جیسے جبر کو برداشت کرکے اس موذ ی وائر س کو شکست سے دوہ چار کیا۔
تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے جس کا انتظام معاشرے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کا نظام تعلیم براہ راست اس ملک کے مسائل اور ضروریات پر منحصر ہوتا ہے۔ نظام تعلیم اور عمل تعلیم معاشرے کی ضروریات اور مسائل کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ عمل تعلیم کا معاشرے سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے کیوں کہ ہر فرد کا تعلق معاشرے سے ہوتا ہے اور معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کے لئے تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے مگر ہمارے معاشرے میں تو الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں علم کا تعلق پیسے سے جوڑا جاتا ہے حالانکہ علم کا تعلق پیسے سے نہیں بلکہ علم تو روشنی ہوتی ہے۔
وہ جنوبی فرانس میں ایک شاندار گھر میں رہتے تھے اور ان کے پوری دنیا میں گھر تھے۔ یہ ایک ایسی دلکش و حسین زندگی تھی جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ برطانوی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی الیگزینڈرا ٹولسٹوئے کو سنہ 2008 میں اس وقت اپنے خوابوں کا شہزادہ ملا جب ان کی ایک روسی ارب پتی سرگئی پْگاچیو سے ملاقات ہوئی۔ پھر سب کچھ ایک ڈراؤنے خواب میں بدل گیا۔ اس کہانی کا آغاز پانچ برس پہلے ہوتا ہے۔
2018کے انتخابات سے کچھ ہی عرصے قبل صوبے میں ایک نئی جماعت وجود میں آئی جس کے بانی سعید احمد ہاشمی ہے اور پارٹی کا نام بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) رکھا گیا۔ پارٹی قیام میں آتے ہی پارٹی اراکین نے سیاسی ریس میں برتری حاصل کرنے کیلئے اپنے اپنے گھوڑے سنبھال لئے۔ خیر الیکشن ہوئے اور بلوچستان عوامی پارٹی نے اپنے فتح کے جھنڈے گھاڑ دئیے اور صوبے میں اکثریت حاصل کرلی لیکن حکومت بنانے کیلئے ان کو دیگر پارٹیوں کا ساتھ درکار تھا لہٰذا انہوں نے مرکز میں اکثریت سے جیتنے والے پارٹی کے اراکین یعنی پی ٹی آئی کے علاوہ اے این پی، ایچ ڈی پی، بی این پی عوامی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
سیاسی زرف نگاہوں کا نقطہ نظر اپنی جگہ صائب ہے کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے ان کے نزدیک حزب اختلاف اور حکومت میں ہم آہنگی کیو نکر ہو سکتی ہے جبکہ حزب اختلاف کا کام بھی یہی ہوتا ہے حکومت کی کارکر دگی پر نظر رکھنا، ان کی بنائی گئی پالیسیز کی نشاندہی کرنا، معاملات اگر قومی مفادات سے ہٹ کر ہوں حکومت پہ جائز تنقید کرنا لیکن جب معاملات کرونا جیسی عفریت سے نمٹنے جیسے ہوں تو اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اس کی طرف جھکاؤ سیاسی بالغ نظری ہے۔باقی اتفاق رائے کے بجائے اختلاف رائے کو قائم رکھنا مزید دراڑیں پیدا کرنے کے مصداق ہے۔
یہ بات بھی سچ ہے سلطنت عثمانیہ مسلمانوں کی عظمت ورفعت کی ایک درخشندہ مثال ہے اورترک ڈرامہ ارتغرل میں اس کی بہترین اندازمیں منظرکشی کی گئی ہے۔لیکن کیاہم برصغیرکے مسلمانوں کے پاس مقامی مسلم سپہ سالاروں کی اس جیسی مثالیں موجودنہیں ہیں؟
مغربی میڈیا میں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے کہ عراق کا نیا وزیر اعظم ایرانی حمایت یافتہ ہے۔ اس بات پر امریکی اور اسرائیلی حکام میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ عراق میں ایرانی حمایت یافتہ سیاسی اور مذہبی گروہوں نے نئے نامزد عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ چونکہ امریکہ اور ایران عالمی سیاست میں روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں اس لیے امریکہ کی پسند ایران کی نا پسند اور ایران کی پسند امریکہ کی ناپسندہوتی ہے،دوسری وجہ یہ ہے کہ ایران کی وزارتِ خارجہ نے نئے عراقی وزیر اعظم کی نامزدگی کا بھر پور خیر مقدم کیا ہے۔
میں آواران میں تھا دیگر دوستوں میں اسد عطا، یاسر ناصر، اکرم اکبر، تنویر میروانی، وسیم میروانی، حسن میروانی، نبیل ارمان، جلیل معراج، شکیل بلوچ، سالم بلوچ اور دیگر احباب نے ہمیں آواران میں جوائن کیا تھا۔ پروین ناز کراچی میں جبکہ عابد میر، نواز فتح اور نجیب اللہ سرپرہ کوئٹہ میں پروگرام کو ترتیب دینے میں مصروف تھے۔ اسٹوڈنٹس کی ایک ٹیم جو کراچی، کوئٹہ اور اوتھل میں مقیم تھی سب سے رابطہ جاری تھا۔ ڈگری کالج آواران کے اسٹوڈنٹس کی بڑی تعداد بطور رضاکار ہمارے ساتھ شامل ہو چکی تھی۔ پروفیسر شکیل بلوچ اور اس کا اسٹاف بھی ہمارے ساتھ تھاہم پروگرام کو ترتیب دینے اور منیجمنٹ کی تیاریاں کر رہے تھے۔