ہمیں اخلاقی فتح حاصل ہو چکی تھی۔ جب ضلعی ایجوکیشن آفیسر آواران کو سب دروازے بند ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگے اور ان پر گھیرا تنگ ہونے لگا تو انہوں نے وہی کیا جو عموماً میدانِ جنگ میں ایک بزدل سپاہی کرتا ہے۔ ہماری مہم کو ادارہ دشمنی، سلامتی دشمنی قرار دے کر ایک لیٹر نمبر1395-1405/Awnبنام سیکرٹری بجھوا کر ہمیں غداری کا مرتکب قرار دیا۔ اور مذکورہ لیٹر کی کاپی سیکورٹی اداروں کو ارسال کرکے اپنے مذموم عزائم کا پہلی بار کھل کراظہا کیا۔اس سے قبل وہ بہت سارے کندھے استعمال کرکے ناکامی کا شکار ہو چکے تھے۔
چین اور امریکہ روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں۔ امریکہ سپر پاور ہے اور اس دوڑ میں اگر کوئی دوسرا ملک شامل ہے تو وہ چین ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔امریکہ اور چین کی مخالفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باوجود دونوں طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ امریکہ اپنے روایتی حریف چین سے خوفزدہ ہے کہ کہیں چین اقتدار کی اس جنگ میں بازی نہ لے جائے۔
جب آپ پہلا قدم اٹھاتے ہیں تو آپ کو خبر نہیں ہوتی کہ قدم آپ کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں، لیکن جوں جوں قدم آگے بڑھاتے جائیں گے تو راستے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنا آپ بند کرتے ہیں۔ آپ کو پتہ نہیں ہوتا کہ آپ ایک نئی جنگ کا آغاز کر چکے ہوتے ہیں ایک ایسی جنگ جس کی شروعات اپنے آپ ہوتی ہے۔ پہلی شکست اپنی انا کودینی ہوتی ہے سومیں اس انا کو شکست دینے کے لیے اپنے دماغ کو آمادہ کر چکا تھا۔ باتیں چاروں جانب سے سنائی دے رہی تھیں، میدان ِ جنگ میں کئی مہروں نے سامنے آنا تھا۔بہت کچھ کھونے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا تھا۔ وہ رشتے ناطے جن کی ڈوری مضبوطی سے باندھتے چلے آرہا تھا ان رشتوں کی ڈوری ابھی سے کمزور ہوتا ہوا محسوس کر پا رہا تھا۔
حاملہ خواتین اس بارے میں تشویش اور الجھن میں مبتلا ہیں کہ بچے کی پیدائش سے قبل اور بچے کی پیدائش کے بعد، دوران حمل آنے والی پیچیدگیاں،ان کے نوزائیدہ بچوں اور مستقبل کے بچوں کے لئے ناول کرونہ وائرس کتنا نقصان دہ ہے، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر روز اس بیماری کے بارے میں معالجوں، صحت کے اداروں کے مشورے،احکامات بدلتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئیحاملہ خواتین کو معاشرتی دوری، مستعد حفظان صحت پر خاص عمل کرنا چاہئے،ساتھ ساتھ معاشرتی اور پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنا چاہئے۔
ہم سب خواب ہی تو دیکھتے ہیں ان خوابوں کی تکمیل میں جھٹ جاتے ہیں کچھ خواب تکمیل پاتے ہیں تو بہت سارے ادھورے رہ جاتے ہیں۔ ان خوابوں کے آگے بند باندھے جاتے ہیں آدمی ان بندات کو توڑنے میں لگ جاتا ہے۔ آپ ایک بند توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایک اور مضبوط بند آپ کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ آپ مزاحمت کریں یا ہتھیار ڈال دیں یہ آپ ہی پر منحصر ہے۔
میں نے ایک ملاح سے پوچھا کہ سمندر کی گہرائی کتنی ہے؟۔ تو اس نے کہا کہ ”زر“ گواز نہ بیت“ یعنی سمندر کی گہری کو ناپنا ممکن نہیں۔ اور جب بھی نجی تعلیمی اداروں کی بات ہو تو گوادر میں زر سکول کا نام لیا جائے گا۔بقول ملاح کے جب زر کو ناپنا ممکن نہیں تو ایک ماہر تعلیم کے مطابق علم اور سمندر کی تہہ تک جانا بھی ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔
احمدخان بنگلزئی ضلع کچھی کے علاقے مچھ کا رہائشی ہے وہ گزشتہ آٹھ سال سے مچھ میں کوئلہ کان میں مزدوری کررہا ہے ان کے مطابق اس کے چھ بچے ہے اور وہ ایک کرایے کے مکان میں رہتے ہیں روزگار کے دیگر ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئلہ کان میں بیروزگاری کی وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہیں ان کے مطابق روزانہ کوئلہ کان میں میں زمین کے اندر چودہ سو فٹ بغیر کسی احتیاطی آوزار کے کام کرنے پر مجبور ہے انہیں ہمیشہ کان میں اترنے کہ دوران یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ وہ کان سے واپس نکلیں گے بھی یا نہیں لیکن پھر یہ سوچ کر اپنی ہمت بندھاتے ہے اگر کام نہ کرے تو بچے بھوک سے مر جائیں گئے۔
زندگی بھی ایک عجیب سی نعمت اور امتحان ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں کئی لوگ زیادہ چربی اور مزیدار کھانے سے بلڈپریشر دل کی مریض شوگر وغیرہ وغیرہ بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہی ڈاکٹرز حضرات پرہیز دیتے یعنی جی بھر کھانے سے محروم کردیتا ہے۔بعض ایسی اقوام افراد اور محلات بھی اس فانی میں وجود رکھتے ہیں۔جو انسانی زندگی کیلئے درکار خوراک پانی اور دیگر سہولیات سے محرومی کی وجہ سیزندگی کے سخت اور بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ایک طرف جی بھر کھانے سے محروم دوسری طرف تاریخ کے بدترین مہنگائی بے روزگاری اور بھوک وافلاس سے دوچار اقوام زندہ رہنے کیلئے کھانہ راشن وغیرہ نہیں ملنے پر محروم نظرانداز پڑے ہیں۔ایک کہاوت ہے کہ آٹے کی بوری خریدنے والے اٹھا نہیں سکتے اور اٹھانے والے خرید نہیں سکتے۔۔۔بحر حال کائنات میں مختلف قسم کے لوگ رہتے ہیں کوئی بیمار کوئی بے بس کوئی قرضدار کوئی پریشان سب ایک طرح نہیں ہوسکتے ہیں۔الہٰی نظام ہے وہ اپنے قدرت سے چلاتے ہی اپنے بندوں کی امتحانات لے رہاہے۔
بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ مگر آج کل اسی کرفیو نے کشمیر سے بلوچستان کا رخ کیا ہے۔ بلوچستان میں نویں فیصد دکانیں مارکیٹیں اور ہوٹل بند ہیں اور ساتھ ویگن اسٹیشن ویران ریلویز اسٹیشن ویران ایئرپورٹ ویران بس سروس ویران ہیں۔
گوہَنی پِرا __بولان کے دامن میں پہاڑوں کے بیچ چاروں طرف سے چٹانوں سے گری پیالہ نما وادی _____رقبہ 3 مربع میل تھوڑا کم یا پھر کچھ زیادہ فرض کرلیں ____وادی اپنے جنوب میں مچھ شہر مشرق میں ڈھڈر،گرماپ، مارگٹ، سانگان کا علاقہ شمال میں سارو کی پہاڑی اور مارواڑ مغرب میں ہْدباش، نودگوار، شوگ کی بلند بالا پہاڑوں کا سلسلہ لئے ایک ایسا پر فضاء مقام جو اپنی آب ہوا میں خراسان کی مانند مزاجاً سرد ہے ______مگر دھوپ چڑھے تو درخت و درنگ کا سایہ کہیں میٹھا لگے ___