طاقتور کرونا، کمزور معیشت

| وقتِ اشاعت :  


اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا ہے کہ دنیا کو کرونا کی شکل میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑے امتحا ن کا سامنا ہے۔کرونا سونامی نے دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ میں تباہی مچا رکھی ہے اور کرونا وائرس امریکہ میں خوفناک حد تک پھیل رہا ہے۔ امریکہ نے دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کو کرونا کی تباہ کاریوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔



“غیر ریاستی ٹائیگر”

| وقتِ اشاعت :  


وزیراعظم نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ ٹائیگر فورس تشکیل دے رہے ہیں۔ یہ سن کر تعجب ہوا ماضی کی سیاسی جماعتوں نے اسی طرح کے کئی تجربات کیے،جب بھی پاکستان پر مشکل پڑی تو اندرون یا بیرون ملک سے مالی امداد آنا شروع ہوئی خواہ وہ کسی ترقیاتی و فلاحی اسکیموں کے نام سے ہو، سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی ورکروں کو آگے لانے کے لئے پوری چالیں چلنا شروع کردیتی ہیں۔ بڑے موثر جاگیردار، سرمایہ دار طاقتور لوگوں کو سیاستدان حقیقی کارکنوں کو نظر انداز کرکے پارلیمنٹ میں لے جاتے ہیں اور وہ غریب نوجوان طبقہ جس سے یہ جھوٹے وعدے کر کے ووٹ لیتے ہیں وہ حکمران طبقے کو بارہا آزما کر مایوس ہو چکا ہوتا ہے، اس کو اس طرح کے لولی پاپ اسکیموں میں ملوث کرتے ہیں تاکہ وہ غیر منظم، غیر تربیت یافتہ، غیر ریاستی پروگرام میں شامل ہو کر یا تو کرپشن کا شکار ہو ں یا وہ یہ تصور کر لیں کہ ہمارا لیڈر تو ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن بیوروکریسی یا اور ادارے کام نہیں کرنے دیتے۔



بلوچی حال احوال

| وقتِ اشاعت :  


بلوچ بحیثیت قوم ایک شاندار تاریخ اور ماضی کا مالک ہے۔ بلوچی ثقافت میں حال احوال کی اہمیت سب سے اہم ہے۔ عام زبان میں حال احوال کو دعا سلام کو بھی کہتے ہیں۔ حال احوال دوست ہو یا دشمن سب سے کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کی سر زمین پہ حال احوال کے دوران سب ایک خاندان کے لوگ بن جاتے ہیں اور کسی چیز کی تفریق نہیں ہوتی ہے۔جب بلوچ اقوام کے افراد ایک جگہ بیٹھتے ہیں تو ایک فرد سب سے اجازت مانگتا ہے کہ ہم حال احوال شروع کریں۔



کورونا میرے شہر میں

| وقتِ اشاعت :  


روشنی اور تاریکی دو مختلف حالتوں ہی کا نہیں بلکہ دو مختلف کیفیات کا نام بھی ہے۔ روشنی کا سفر کسی بھی جان دار کی زندگی میں تب شروع ہوتا ہے، جب ایک نومولود ماں کے پیٹ سے اندھیرے کا ایک طویل سفر طے کر نے کے بعددنیا میں داخل ہوتا ہے، اور پھر یہی سفر روشنی سے تاریکی کی جانب سفر کرتے تکیمل پاتا ہے۔ وہ اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔ جیسے اْجالا زندگی اور اندھیرا موت کی علامت ہو، بالکل اسی طرح اچھائی، نیکی یا خیر بھی اْجالے کے مانند ہے۔ جب کہ برائی یا شر کو اندھیرے سے تشبیہ دینا غلط نہ ہو گا۔ ایسے ہی اْمید اْجالا اور نا اْمیدی گہرا اندھیرا۔ جنت روشنی ہے اور جہنم تاریک گڑھا۔



بلوچستان حکومت نے میزبانی کا حق ادا کیا

| وقتِ اشاعت :  


کورونا وائرس نے دنیا بھر میں خوف وہراس پھیلارکھا ہے عالمی ماہرین نے اس پھیلاؤ کوروکنے اور اس کی ہلاکت خیزیوں کے تدارک کے لئے فی الحال یہی علاج دریافت کیا ہے معانقے اور مصافحے سے گریز اور پرہیز کیاجائے کورونا ایک عالمی وبا ء کی صورت میں کم وبیش دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اس وقت ہمارے آٹھ ہزار سے زائد پاکستانی زائرین وہاں ایران میں پھنس چکے تھے لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان آئی جی ایف سی کے دانشمندانہ فیصلے نے ایران سے واپس پاکستان ہاؤس تفتان میں اپنے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کومحفوظ راستہ فراہم کیا لیکن اس مصیبت کی گھڑی میں اپوزیشن کورونا پر پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے حکومت کیساتھ تعاون کرنا چاہیے یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ انسانیت کا ہے۔



ہمیں تعلیم دو

| وقتِ اشاعت :  


کبھی کبھی جب مجھے تنہائی ستاتی ہے، تو میں خیالات کی دنیا میں گم ہوجاتا ہوں۔اور کئی خیالات میرے ذہن میں پیوست ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھار خیال آتا ہے کہ سائنس کی بے شمار ایجادات کی وجہ سے انسان خلا تک رسائی کے بعد اور دوسرے کئی سیاروں تک پہنچ چکا ہے۔



کورونا،میڈیااورعوام

| وقتِ اشاعت :  


کوروناوائرس، کیسے، کیوں،کہاں اورکون؟یہ وائرس کے بعد اٹھائے جانے والے وہ سوالات ہیں جو وائرس کی وباء سے پہلے اٹھانے چاہئیں تھیں، مگر وائرس نے اپنے پنجے پاکستان میں گاڑ دیئے ہیں، مریضوں کی تعداد میں اضافہ اور اموات کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے مگر چند میڈیا کی سنسنی خیز خبروں کی نشر ہر سکینڈ کے دوران بریکنگ نیوز کی صورت میں عوام کے ذہنوں میں خوف پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں وہ سنسنی خیزخبریں ہیں جو عوام کو بروقت پہنچائی جارہی ہیں جبکہ ساتھ ہی کورونا وائرس سے جڑی سائیڈ اسٹوریز پر بھی مسلسل خبریں دی جارہی ہیں۔میڈیا کی ذمہ داری بالکل بنتی ہے کہ عوام کو ہر خبر سے باخبر رکھے، کتنا سچ بولا جائے جو ہضم ہوسکے۔



کرونا بمقابلہ عوام

| وقتِ اشاعت :  


جس دن سے لاک ڈاؤن کی بازگشت سنائی دے رہی تھی تب سے عوامی، سیاسی اور دیگر حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث رہا ہے لوگ اجتماعی اور انفرادی طور پر حفاظتی تدابیر، معاشی پہلو اور سماجی روابط پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے رہے ہیں ان تمام تجزیوں اور چی میگوئیوں کے باوجود حتمی فیصلہ حکومت کا ہوتا ہم بھی گاہے بگاہے کسی دوست سے نوک جھونک کر ہی لیتے میرا خیال تھا کہ لاک ڈاؤن کے بعد ویران سڑکوں اور گلی محلوں پر بھوک راج کرے گی کیونکہ میرا یقین ہے۔



ہمارا آئینہ

| وقتِ اشاعت :  


مبصرین، ناقدین اور تجزیہ نگار حالات ِ حاضرہ پہ اپنے تبصروں، تنقیدی اور اصلاحی رائے سے صورتحال کو پرکھنے، سمجھنے اور مزید بہترین لائحہ عمل کی تحریک میں کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ میڈیا پلیٹ فارم پر محقق و تجزیہ نگار کسی بات کی اصل و نقل بنیاد پر بحث کرتے، تجاویز پیش کرتے، اپنے اپنے مشاہدے، علم اور تجزیے سے بات کرتے ہیں تو جچتا بھی ہے۔ لیکن عوامی سطح پر جب پڑھی لکھی جاہل عوام مبصر، ناقد اور بے جا محقق بن کر سوشل میڈیا کے سہارے دانشوری جھاڑتی ہے تو ملک و عوام کی تباہی کا سامان خود ہی تیار کر لیتی ہے۔



کورونا وائرس، حکومتی اقدامات،لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیاں

| وقتِ اشاعت :  


ماہ دسمبر 2019کے اختتام پر کورونا وائرس کے بارے بین الاقوامی میڈیا پر خبریں گردش کرنا شروع ہوئیں جسکی بازگشت ہمارے میڈیا تک پہنچی تو ان خبروں پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی اگر کہیں اس وائرس کے خطرناک حد تک پھیلاؤ اور تباہ کاریوں کے بارے مقامی افراد سے گفتگو کی تو اکثریت نے اس بارے کہا کہ یہ بیماری مسلمانوں میں نہیں آسکتی کیونکہ ہم کونسا حرام جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں،ان کا کہنا ہوتا تھا کہ جہاں سے اس وائرس سے پھیلنے والی بیماری کی خبریں آرہی ہیں وہ تو حرام جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں۔