سڑکوں کے آس پاس بیلچہ اور کدال لیے کھڑے یہ لوگ آخر کون اور کس کے منتظر ہیں؟ جب سرمایہ دار کی گاڑی ان کے قریب آکر رکتی ہے تو یہ سب گاڑی کو گھیر کر اپنے آپ کو پیش کرنے لگتے ہیں۔۔ تو ایسے موقع پر ہوتا کیا ہے۔۔ بس ہونا کیا ہے کہ سرمایہ دار اس مزدور کا انتخاب کرتا ہے جو بہت ہی کم اجرت پر پوری دن مزدوری کرنے کے لیے تیار ہو۔ ان کی آنکھوں میں سوائے عسرت کے اور کچھ نہیں دکھا ئی دیتی۔
تعلیم و تزکیہ کار انبیاء کرام ہیں۔ قرآن حکیم کا آغاز ”اقراء“ پڑھنے، سمجھنے، اخذ کرنے، قبول کرنے اور اپنے آپ کو بدلنے و سنبھالنے کے ہیں۔ ”تزکیہ“ نشوونما اور پاکیزگی اختیار کرنے اور قبول کرکے مسلسل جاری و اہتمام رکھنے کو کہتے ہیں۔
بلوچستان میں آج کل ہر طرف جلسے،جلوس اور دھرنوں کی ریل پیل ہے۔ حکمرانوں کو یہ ریل پیل کم جبکہ راہ چلتے لوگوں کوزیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ خود پہ طاری گزشتہ ایک ماہ کی خودساختہ بندشوں سے آزادی پاتے ہی نظریں جب کوئٹہ کی مین شاہراہوں پر پڑیں تو سڑکیں سراپا احتجاج بن چکی تھیں۔ حکومت کے خلاف نعروں کو شاید ہی بند کانوں نے نہ سنا ہو مگر کوئٹہ کے در و دیواروں نے یہ آواز اپنے اندر محفوظ کر لیے۔ اساتذہ احتجاج پر، ڈاکٹر احتجاج پر، طلبا ء احتجاج پر، فارماسسٹس احتجاج پر، انجینیئرز احتجاج پر۔ غرض چاروں طرف احتجاجی مظاہروں کے درمیان حکومت مخالف نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔
29 جون کو پاکستان نیول اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ دیکھنے کا اتفاق ہوا، نظم و ضبط اور انتظامات تو لاجواب تھے ہی مگر تربیتی معیار، اس سلسلے میں انتظامیہ کی کاوشیں اور کیڈٹس کا عمل بھی قابل تحسین تھے۔خوشگوار حیرت کے کئی در تھے جو پے در پے وا ہوتے گئے پا،کستان نیول اکیڈمی کی 111 ویں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے مہمان خصوصی کمانڈر رائل سعودی نیول فورسز وائس ایڈمرل فہد بن عبداللہ الغوفیلی تھے جنہوں نے اپنی ابتدائی تربیت پاکستان نیول اکیڈمی سے حاصل کی۔
یہ سفر اتنا طویل تو نہیں ہے چند دنوں کی بات ہے کہ جب بلوچستان کے نوجوان ایک نئے مستقبل اور زندگی کی سب سے اہم مرحلے کا آغاز کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے اور وہ پھولے سما نہیں رہے تھے کہ اب وہ میڈیکل کی کتاب اور سفید کوٹ پہن کر اور ہاتھ میں Stethoscope لے کر اس کلاس میں اپنا پہلا قدم رکھیں گے جہاں انسانیت کی خدمت کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے، جہاں مسیحا بننے کی تعلیم دی جاتی ہے جنہیں ہم عرفِ عام میں“ڈاکٹر”کا نام دیتے ہیں۔
26 جون کو دنیا بھر میں انسداد منشیات کا عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں منشیات کے نقصانات کے حوالے سے شعور و آگاہی اجاگر کرنا ہے، یقینا کسی بھی ملک و قوم کی حقیقی ترقی کا انحصار وہاں کے افراد کی ذہنی اور جسمانی قوت پر ہوتا ہے منشیات کا استعمال انسانی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے جس معاشرے کو منشیات کے تاریک سائے اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں وہ معاشرہ بد امنی،معاشی، معاشرتی اور سیاسی انحطاط کا شکار ہوجاتا ہے، نشہ انسانی نقطہ نظر سے ایک لعنت ہے۔
دنیا بھر کے ممالک میں بجٹ پیش کرتے وقت اُن ممالک کے حکومتوں کو ملک میں موجود وسائل، ملکی اخراجات اور ریاستی و حکومتیاخراجات کامکمل ادراک ہوتا ہے لیکن پیارے پاکستان میں حالیہ بجٹ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت کو شاید ان چیزوں کا ادراک ہی نہیں تھا بلکہ شاید انہیں ملک میں موجود غربت کی شرح اور انپے اخراجات کا بھی علم نہیں تھا تبھی تو بجٹ میں ان دونوں اجزاء کے اعداد و شمار و حساب کتاب میں جھول نظر آیا۔ گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت نے جب 2019-20 کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا تو تبدیلی سرکار کا یہ 70 کھرب 22 کروڑ رپے کا پہلا بجٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی تاریخ کا انتہائی خسارے پر مبنی بھی پہلا بجٹ ہے۔
یہ دنیا بے بہا علوم کا مجموعہ ہے،انسانی عقل ہمیشہ ان علوم کی وسعت کو کھوجنے میں لگی رہی اور ا سی سبب دنیا نے ترقی کی اتنی منازل طے کر لیں کہ شاید زمانہ قدیم کے انسان کا ذہن اسے تسلیم بھی نہ کر سکے۔سمندر کی وسعت اور گہرائی انسانی ذہن کے لئے ایک ایسا ہی معمہ رہی جس کی کھوج میں نسل انسانی نے صدیوں کا سفر طے کیا،نوع انسانی کی ہمیشہ یہ خواہش اور کوشش رہی کہ وہ سمندر کی گہرائی میں اتر کر نئی دنیا کی وسعتوں کو دریافت کرے اور اس میں چھپے بیش بہا خزانوں سے مستفید ہو۔یہی وجہ ہے کہ انسان نے سمندری مہم جوئی کا آغاز کیا،تاہم یہ مہم جوئی زمینی راستوں کی نسبت زیادہ پیچیدہ اور دشوار تھی کیونکہ حد نگاہ سے آگے سمندر کی تہہ کیا چھپائے بیٹھی ہے یہ کوئی نہ جانتا تھا۔ لیکن انسان کی جستجو اور لگن اس کی ہر کامیابی کا راز ہے اور اسی جستجو کا ہی نتیجہ تھا کہ سمندر کی تہہ میں موجود خزائن اور رکاوٹوں کا سراغ لگانے کے طریقے بھی ڈھونڈ لئے گئے۔
طلباء سیاست سے میرا تعلق پچھلے کئی عرصوں سے ہے۔اس عرصے میں جب میری ملاقاتیں طالب علموں سے ہوئیں تو سب کی زبان سے ایک جملہ بکثرت سننے کو ملا کہ ہم پڑھنا چاہتے ہیں لیکن حکومت کی غیر سنجیدگی اور سہولیات کی عدم دستیابی اور دیگر موجودہ مسائل کی وجہ سے ہم سکون سے پڑھ نہیں سکتے۔
انڈے کی اہمیت سے تو سبھی آگاہ ہیں، غذائی اہمیت کے اعتبار سے دودھ کے بعد اس کا نمبرآتا ہے۔ انڈہ ہر عمر اور ہر موسم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مقوی غذا ہونے کے ساتھ دماغ اور آنکھوں کو تقویت دیتا ہے۔ یہ پروٹین، فاسفورس اور کیلشیم سے بھرپور ہے۔